 
                    اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار حلال ہے یا حرام ؟ اگر حلال ہے تو اس میں فیوچر ٹریڈنگ کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے آیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ برائے مہربانی جلد راہنمائی فرمائیں۔
 فیوچر ٹریڈنگ کے اکثر و بیشتر معاملات میں نہ مبیع کی سپردگی ہوتی ہے، اور نہ ثمن کی ادائیگی ،اور البتہ آخر میں ڈفرنس برابر کر لیا جاتا ہے، یہ شریعت کے بہت  سے احکام سے متصادم ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اس سے احتراز چاہئیے۔ 
جبکہ اسٹاک مارکیٹ سے شیئرز کی خرید و فروخت درجِ ذیل چار شرطوں کے ساتھ جائز ہے ۔
 (۱): جس کمپنی کے شیئرز خریدے جا رہے ہیں، وہ کمپنی کسی حرام کا روبار میں ملوث نہ ہو۔
 (۲) :اس کمپنی کے تمام اثاثے اور املاک سیال اثاثوں ( Liquid Assets) یعنی نقد رقم کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ کمپنی نے کچھ فکسڈ اثاثے (Fixed Assets ) حاصل کر لیے ہوں، مثلاً بلڈنگ بنائی ہو یا زمین خریدی ہو ۔
 (۳) :اگر کمپنی کا بنیادی کاروبار تو حلال ہو، مگر کمپنی سودی لین دین کرتی ہو تو اس صورت میں اس کی سالانہ میٹنگ میں سودی لین دین کے خلاف آواز اٹھائی جائے ۔
 (۴): چوتھی شرط جو حقیقت میں تیسری شرط کا حصہ ہے، وہ یہ کہ جب منافع تقسیم ( Dividend ) ہو تو وہ شخص انکم اسٹیٹمینٹ (income statmand) کے ذریعہ معلوم کرے کہ آمدن کا کتنا فیصد حصہ سودی ڈپازٹ سے حاصل ہے، پھر جتنا فیصد حصہ سودی ڈپازٹ سے حاصل ہوا ہو، اس کو صدقہ کر دے ۔ لہذا مذکورہ بالا تمام شرائط کی مکمل پابندی کے ساتھ اگر شیئرز کا کاروبار کیا جائے تو اس سے حاصل شدہ نفع بھی حلال ہوگا ۔
 
 كما فى الهداية : ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لانه نهى عن بيع ما لم يقبض اھ ( ج ۳ ص۷)۔
 في الدر المختار: (ولا يجوز بيعها) لحديث مسلم «إن الذي حرم شربها حرم بيعها» (6/ 449)۔
و في البحر البحر الرائق: قوله ( فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض ) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق اھ (6/ 209)۔
 و في حاشية ابن عابدين: (قوله وتصدق إلخ) أصله أن الغلة للغاصب عندنا؛ لأن المنافع لا تتقوم (إلی قوله) ويؤمر أن يتصدق بها لاستفادتها ببدل خبيث وهو التصرف في مال الغير اھ (6/ 189) -