 
                    محترم مفتی صاحب! شیئرز کے کاروبار کے متعلق معلوم کرنا ہے ، بینک اور دیگر کمپنیوں کے شیئرز ہم خریدتے ہیں، اور بعض اوقات مارکیٹ ریٹ گھٹتی ہے، اور بعض اوقات پڑھتی ہے تو آیا یہ کاروبار صحیح ہے کہ نہیں ؟
 کسی بھی بینک یا کمپنی سے شیئرز کی خرید و فروخت  درج ذیل چار شرائط کے ساتھ جائز اور اس سے حاصل ہونے والا منافع بھی حلال ہے :
 (1) اصل کاروبار حلال ہو شراب وغیرہ بنانے کی فیکٹری یا سودی لین پر مشتمل (جیسے سودی بینک وغیرہ) نہ ہو ۔ (۲) اس کمپنی کے کچھ منجمد اثاثے وجود میں آچکے ہوں رقم صرف نقد کی شکل میں نہ ہو۔ (۳) اگر کمپنی سودی لین دین کرتی ہے تو اس کی سالانہ میٹنگ میں سود کے خلاف آواز اٹھائی جائے ، (۴) جب منافع تقسیم ہو تو اس وقت جتنا نفع کا حصہ سودی ڈپازٹ سے حاصل ہوا ہو اس کو بلانیت ثواب صدقہ کر دے ۔
یہ تب ہے جب شیئرز خریدنے کا مقصد کسی کمپنی کا حصہ دار بننا ہو ا ور پھر گھر بیٹھ کر اس کا سالانہ نفع حاصل کرنا ہو، لیکن بعض لوگ اس مذکور غرض سے نہیں خرید تے، بلکہ ان کا مقصد کیپیٹل گین ہوتا ہے یعنی وہ اس کا اندازہ کرتے ہیں کہ کسی کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں اضافہ ہونے کا امکان ہے، چنانچہ اس کمپنی کے شیئرز خرید لیتے ہیں اور پھر چند روز بعد جب قیمت بڑھ جاتی ہے فروخت کر دیتے ہیں اور نفع حاصل کرتے ہیں، اس کی بھی شرعاً مذکور شرائط کے ساتھ گنجائش ہے ۔ لیکن اس کو درست کہنے کی دشواری سٹہ بازی کے وقت پیش آتی ہے جو اسٹاک ایکسچینج کا بہت بڑا اور اہم حصہ ہے، جس میں بسا اوقات شیئرز کا لین دین بالکل مقصود نہیں ہوتا، بلکہ آخر میں جا کر آپس  کا فرق (ڈیفرنس) برابر کیا جاتا ہے اور شیئر ز پر نہ تو قبضہ ہوتا ہے اور نہ ہی قبضہ پیش نظر ہوتا ہے ۔
لہذا جہاں یہ صورت ہو کہ قبضہ بالکل نہ ہو اور نہ لینا مقصود ہو اور نہ دینا مقصود ہو، بلکہ اس طرح سٹہ بازی کر کے ڈیفرنس کو برابر کر لینا مقصود ہو تو یہ صورت بالکل حرام ہے اور شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہیں، اسی طرح بعض اوقات شئیرز پر قبضہ اور ڈیلیوری سے پہلے ہی ان کو آگے فروخت کر دیا جاتا ہے اس کی بھی شریعت میں اجازت نہیں ہے کیوں کہ شیئرز پر قبضہ ضروری ہے اور شیئرز کا قبضہ یہ ہے کہ شیئرز ہولڈر اس کے نفع و نقصان کا حقدار بن جائے جس کو رسک میں آنے سے تعبیر کیا جاتا ہے (ماخوذ از فقہی مقالات) 
 وفي فتح القدير للكمال ابن الهمام: عن حكيم بن حزام قال: «قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه»
 ويقول لم يجز بيعه حتى يقبضه لأنه - عليه الصلاة والسلام - نهى عن بيع ما لم يقبض اھ (6/ 511)واللہ اعلم بالصواب