 
                    السلام علیکم :میرے شوہر نے تین سال پہلے تین الگ الگ کمپنی کےشئیرز خریدےتھے جس کو ابھی تک بیچے نہیں ہیں،خریدتے وقت معلوم نہیں تھا کہ شئیر مارکیٹ میں انویسٹ کرنے کے کچھ شریعت کے  اصول ہیں، اب پتہ چلا  توکمپنی کے بارے میں تحقیق کی تو کمپنی ان شرائط پر پوری  اتری ،اس کا بزنس حلال ہےاور کمپنی نے قرض بھی ٪33سے کم لیا ہےاور حرام کمائی ٪5سے کم ہےاور جامد اثاثے بھی ہیں  (1) تو اس صورت میں اب شئیرز  بیچ کر نفع لینا صحیح ہوگا؟
(2) نفع میں سے حرام کمائی صدقہ کر دینا کافی ہوگا ؟
(3) یا  جیسے کہ میں نے سنا ہے کہ کمپنی کی حرام کمائی کے خلاف آواز بلند کرنا شئیر خریدنے والے کی ذمے داری ہے(بقول حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) ۔
(4) اگر میرے شوہر صرف حرام کمائی صدقہ کر دیں آواز کمپنی کے خلاف نہ اٹھا ئیں تو کیا یہ صحیح ہوگا ؟ 
(5) اگر کوئی شخص صرف شئیر  مارکیٹ سے پیسے کماتا  ہے دوسرا کوئی  ذریعۂ معاش نہ ہو تو کیا ا س پیسے کے استعمال میں کوئی قباحت ہے ؟
سائلہ کے شوہر نے جن کمپنیوں کے شیئرز خریدے ہیں ا گر ان کا اصل کاروبار حلال ہو اور کمپنی کے جامد ا ثاثے بھی ہوں اور سائلہ کے شوہر نے دیگر شرائط کا بھی لحاظ رکھا ہو تو ایسی صورت میں سائلہ کے شوہر کیلئے ان کمپنیوں کے شیئرز خرید نا اور اس کے ذریعے منافع حاصل کرکے اپنے استعمال میں لانا جائز اور درست ہوگا ،شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں، البتہ ا گر وہ کمپنیاں کسی نہ کسی درجہ میں سودی لین میں بھی ملوث ہوں تو ایسی صورت میں ان کےشیئرز کی خریدوفروخت کے جواز کیلئے علماء کرام نے شیئرز ہولڈر پر یہ لازم قرار دیا ہے کہ وہ سالانہ میٹنگ میں سود کے خلاف آوز اٹھائے ، اور نفع کا جتنا حصہ سودی ڈپازٹ سے حاصل ہو ، اس کو صدقہ کرے ، کیونکہ جس طرح سودی لین دین کرنا درست نہیں اسی طرح سودی لین کی اجازت دینا اور اس پر رضامند ہونا بھی درست نہیں ، لہذا سائلہ کے شوہر کیلئے ایسی کمپنیوں کی سالانہ میٹنگ میں اپنی وسعت و استطاعت کے مطابق سود کے خلاف آواز اٹھانا بھی ضروری ہوگا۔
فی فقہ البیوع : و بجواز بیع الاسھم افتی کثیر من العلماء الھند مثل الامام الشیخ اشرف علی التھانوی و لكن هذاالجواز يخضع لجميع شروط البيع فلوكانت الشركة لم تبدأ نشاطها و كانت موجوداتها مقتصرة على نقود فإن أسهم تلك الشركة لاتمثل إلا نقوداً فلوبيع السهم بنقد في هذه الحالة فإنّه لا يجوز بيعها بأقل أو أكثر من قيمتها الاسمية لأن التفاضل يؤدى إلى الربا وكذلك إن كانت الشركة تجارتها حراماً مثل الشركات التي تتعامل في الخمر أو الخنزير أو البنوك الربوية يحرم تداول أسهمها أما ذا كانت الشركة نشاطها التجارى حلالاً و لكنها تودع فائض نقودها في البنوك الربوية و قد تقترض منها قروضاً ربويۃ فاختلفت أنظار الفقهاء المعاصرين في جواز شراءأسهمها فقالت جماعة من العلماء إنّه لا يجوز شراء أسهمها لأن حامل السهم يشارك فى هذه العمليات المحرمة فكان مثل شراء أسهم الشركات التي نشاطها التجارى حراماً و قال الآخرون : إن إيداع فائض النقود في البنوك الربوية عملية منفصلة عن نشاطها التجارى فلا يؤثر على أصل النشاط بشرط ان يكون قليلاً بالنسبة إلى نشاطها الأساسي(الی قولہ)و قالوا : إن حامل السهم يجب عليه أن يرفع صوته في الجمعية العمومية ضد الإقراض او الاقتراض الربوی و لكن إذا رفض صوته بالأغلبية و دخل هذا الكسب المحرم في أرباح الشركة فإنه يجب عليه أن يتخلص من هذا الكسب المحرم بالتصدق بما يُساوى حصته من الإيراد الذي دخل فی الشرکۃ تبعاً من خلال هذا الإيداع أما عملية الاقتراض الربوى فحرام بلاشك و يأثم بها فاعلها ولكن المبالغ المقترضة تدخل في ملكه وضمانه فلا يحرم ما يكسبه بها وعلى حامل السهم أن لا يأذن مديري الشركة بهذه التعاملات الربوية برفع صوته في الجمعية العمومية فإن امتنعوا فهو المقصود وإن لم يمتنعوا فلا ينسب فعلهم إلى حامل السھم لأن طبيعة الشركة المساهمة مختلفة من شركة الأشخاص من حيث إن القرارات في الشركة المساهمة تتخذ على أساس الأغلبية وليس بإجماع الشركاء كما هو الحال في شركة الأشخاص، فلا تُنسب القرارات إلى حامل السھم الذي صرح بإنكاره عليها وإلى هذا يبدو ميلان شيخ مشايخنا التهانوي ثم إن كان اقتناء رحمه الله تعالى اھ (1/382)۔