 
                    میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسٹاک ایکسچینج میں روز مرہ تجارت جائز ہے یا نہیں ؟ نیز میں حلال کا روبار کس طرح کرسکتا ہوں؟
 واضح ہو کہ ہر کاروبار میں نفع و نقصان کا احتمال ہوتا ہے، اس سے کاروبار کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، تاہم اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت درج ذیل شرائط کیسا تھ جائز ہے:
۱۔ جس کمپنی کے شیئرز خریدے جا رہے ہیں، وہ کمپنی کسی حرام کاروبار میں ملوث نہ ہو۔
۲۔ اس کمپنی کے تمام آثاثے اور املاک سیال اثاثوں  یعنی نقد رقم کی شکل میں نہ ہو، بلکہ کمپنی نے  کچھ فکسڈ اثاثے حاصل کر لیے ہوں، مثلاً بلڈنگ بنائی ہو، یا زمین خریدی ہو۔
۳۔ اگر کمپنی کا بنیادی کاروبار حلال ہو، لیکن کمپنی سودی لین دین کرتی ہو تو اس صورت میں اس کی سالانہ اجلاس (میٹنگ) میں سودی لین کے خلاف آواز اُٹھائی جائے۔
۴۔ چوتھی شرط جو حقیقت میں تیسری شرط کا ایک حصہ ہے، وہ یہ کہ جب منافع   تقسیم ہو تو انکم اسٹیٹ منٹ کے ذریعہ معلوم کیا جائے کہ آمدنی کا کتنا حصہ سودی ڈپازٹ سے حاصل ہوا ہے، پھر اس کو بلا نیت ثواب صدقہ کر دے۔
	لہذا مذکورہ بالا تمام شرائط کی مکمل پابندی کے ساتھ شیئرز کا کاروبار کیا جائے تو اس سے حاصل نفع بھی حلال ہوگا۔  
 كما في مشكاة المصابيح: عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " طلب كسب الحلال فريضة بعد الفريضة " . رواه البيهقي في شعب الإيمان (2/ 128)
وفي الهداية شرح البداية: إن باع سيفا محلى بمائة درهم وحليته خمسون فدفع من الثمن خمسين جاز البيع (إلی قوله) وهذا إذا كانت الفضة المفردة أزيد مما فيه فإن كانت مثله أو أقل منه أو لا يدرى لايجوز البيع للربا اھ (3/ 83)
وفي البحر الرائق: وهو وما إذا علم أن الثمن أزيد مما في الحلية ليكون ما كان قدرها مقابلا لها والباقي في مقابلة النصل  هذا إذا كان الثمن من جنس الحلية فإن كان من خلاف جنسها جاز (زكى)كيفما(فما) كان لجواز التفاضل (التفاصيل) ولا خصوصية للحلية مع السيف والطوق مع الجارية بل المراد إذا جمع مع الصرف غيره فإن النقد لا يخرج عن كونه صرفا بانضمام غيره إليه اھ (6/ 213)
وفيه ايضاً: قوله ( فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض ) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق اھ (6/ 209)
وفي حاشية ابن عابدين:  قوله (وتصدق إلخ) أصله أن الغلة للغاصب عندنا لأن المنافع لا تتقوم إلا بالعقد والعاقد هو الغاصب فهو الذي جعل منافع العبد مالا بعقدة فكان هوأولى ببدلها ويؤمر أن يتصدق بها لاستفادتها ببدل خبيث اھ (6/ 189) والله سبحانه اعلم بالصواب!