 
                    میرا سوال یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں انویسٹ ایک جائز کام ہے، اگر جائز ہے تو اس کی کیا شرائط ہیں تفصیل سے بتادیں،اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ دوکاندار قسطوں میں چیزیں دیتے ہیں،مگر وہ کسی بھی چیز کی اصل قیمت سے تھوڑا سا زیادہ لیتے ہیں، جیسا کہ ایک فریج جوکہ بیس (20000) ہزار کا ہے مگر وہ بایئس ہزار لیکر کہیں گے کہ آپ ہر مہینے ہزار دیدیں۔ کیا یہ اسلامی نقطہ نظر سےدرست ہے؟
 اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی خرید وفروخت درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع  بھی حلال ہے ۔(1) اصل کاروبار حلال ہو ،ناجائز اور حرام اشیاء جیسے شراب بنانے کی فیکٹری نہ ہو اوراس کمپنی  کا بنیادی کاروبار  سود پر مبنی نہ ہو وغیرہ (2) اس کمپنی   کے کچھ منجمد اثاثے  وجود میں آچکے ہوں، رقم صرف نقد کی شکل میں نہ ہو (3 ) اگر کمپنی سودی لین دین کرتی ہو ،تو اس کی سالانہ میٹنگ  میں سو د کے خلاف آواز اٹھائی جائے (4) جب منافع تقسیم ہو تو اس وقت جتنا  نفع  کا حصہ سودی ڈپازٹ سے حاصل ہوا ہو اس کوبلانیت  ثواب صدقہ کردے، یہ تب ہے جب شیئرز خریدنے کا مقصد کسی کمپنی کا حصہ دار بننا ہو اور پھر گھر بیٹھ کر اس کا سالانہ نفع حاصل کرنا ہو ،لیکن بعض لوگ مذکور غرض سے نہیں  خرید تے بلکہ ان کا مقصد "کیپیٹل گین" ہوتا ہے، یعنی وہ اس کا اندازہ کرتے ہیں  کہ کسی کمپنی کے شیئرز کی قمیت میں اضافہ  ہونے کا امکان ہے چنانچہ  اس کمپنی کے شیئرز خرید لیتے اور پھر چند روز بعد جب قیمت بڑھ جاتی ہے تو فروخت کردیتے ہیں اور نفع حاصل  کرتے ہیں، اس کی بھی شرعاً مذکورہ شرائط کے ساتھ گنجائش  ہے، اس کو درست کہنے کی صورت میں دشواری سٹہ  بازی کے وقت پیش آتی ہے جو اسٹاک اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی خرید وفروخت کا بہت بڑا اور اہم حصہ ہے جس میں بسا اوقات شیئرز کا لین دین بالکل مقصود نہیں ہوتا بلکہ آخر میں جاکر آپس کا فرق (ڈیفرنس) برابر کیا جاتاہے اور شیئرز پر نہ تو قبضہ ہوتا ہے اور نہ ہی قبضہ پیش نظر ہوتا ہے، لہذا جہاں یہ صورت ہو کہ قبضہ بالکل نہ ہو اور نہ لینا مقصود ہو اور نہ دینا  مقصود ہو کہ اس طرح سٹہ بازی کر کے ڈیفرنس کو برابر کرلینا مقصود ہو تو یہ صورت  بالکل حرام ہے اور شریعت میں اس کی اجازت نہیں اور بعض اوقات شیئرز کی ڈیلوری اور قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کر دیا جاتاہے، اور شیئرز کا قبضہ یہ ہے کہ اس حصہ کے فوائد ونقصانات اس حصہ کی ذمہ داری اس  کی طرف منتقل ہوجائے،اور آگے فروخت کرنا جائز ہوگا اگر مذکورہ قبضہ متحقق نہیں ہو تو آگے فروخت کرنا بھی جائز نہیں۔
(2)	نقد کے مقابلے میں ادھار یا قسطوں پر فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ قمیت وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور سود کے زمرے میں بھی نہیں آتا مگر قسطوں پر معاملہ کرنے کی صورت میں درج ذیل شرائط کو  ملحوظ  رکھنا  ضروری  ہے، (1) اگروہ چیز بینک سے خرید ا جائے تو بینک پہلے خرید کر اپنے قبضہ میں لے چکاہو، اور پھر دوسرے نئے عقد کے ذریعے اپنے کسٹمر پر فروخت کرے، (2)  مجلس عقد میں یہ طے کر لیا جائے کہ یہ معامہ ادھار اور قسطوں پر ہوگا (3) ہر قسط کی مالیت طے کر لی جائے کہ کل قسطیں کتنی ہونگے (4) کسی قسط کی تاخیر کی وجہ سے کوئی جرمانہ وغیرہ مشروط نہ ہو ، ان شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی بھی دکان دار یا ادارہ سے کوئی چیز  قسطوں پر خریدنا بلاشبہ جائز اور درست  ہے، اور اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود  ہوئی تو پھر مذکورہ معاملہ جائز نہ ہوگا۔