 
                    میر سوال یہ ہے کہ میں نے Stock Exchange میں انویسمنٹ کی ہے ،اور میں صرف سیمنٹ ، کھاد، دستاویزات اور ٹیلی فون کمپنی وغیرہ میں تجارت کرتا ہوں، بنک اور انشورنس کے شعبہ میں نہیں کرتا ۔براہ ِکرم آیا یہ کاروبار اسلامی رو سے حلال ہے ؟ اگر چہ میرا ایک سال میں ایک لاکھ کا نقصان بھی ہوا ہے۔
 اسٹاک مارکیٹ میں سے شیئرز خریدنا اور کاروبار کرنا درجِ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
۱:  جس کمپنی کے شیئرز خریدے جارہے ہوں وہ کمپنی کسی حرام کا روبار میں ملوث نہ ہو ۔
۲:  اس کمپنی کے تمام اثاثے اور املاک سیال اثاثوں یعنی نقد رقم کی شکل میں نہ ہو، بلکہ کمپنی نے کچھ فکس اثاثے حاصل کرلیے ہوں مثلا بلڈنگ بنائی ہو یا زمین خریدی ہو۔
۳: اگر کمپنی کا بنیادی کاروبار تو حلال ہو لیکن کمپنی سودی لین دین کرتی ہو۔ تو اس صورت میں اس کی سالانہ میٹنگ میں سودی لین دین کے خلاف آواز اٹھانا بھی لازم ہے۔
۴:  چوتھی شرط جو حقیقت میں تیسری شرط کا جزء ہے وہ یہ کہ جب سالانہ منافع تقسیم ہوں تو اس وقت شیئرز ہولڈر انکم اسٹیٹمنٹ کے ذریعے معلوم کرے، تو آمدنی کا جتنا فیصد حصہ سودی ڈپازٹ سے حاصل ہوا ہو اس کو بغیر نیتِ ثواب کے صدقہ کر دے ، لہذا مذکورہ بالا تمام شرائط کی پابندی کے ساتھ اگر شیئرز وغیرہ کا کاروبار کیا جائے تو اس سے حاصل شدہ نفع بھی حلال ہوگا۔
 
 كما في البحر الرائق شرح كنز الدقائق: (قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق اھ (6/ 209)۔
 و في الدر المختار: (ولا يجوز بيعها) لحديث مسلم «إن الذي حرم شربها حرم بيعها» اھ (6/ 449)۔
و في حاشية ابن عابدين (رد المحتار)؛ (قوله وتصدق إلخ) أصله أن الغلة للغاصب عندنا؛ لأن المنافع لا تتقوم إلا بالعقد والعاقد هو الغاصب فهو الذي جعل منافع العبد مالا بعقده، فكان هو أولى ببدلها، ويؤمر أن يتصدق بها لاستفادتها ببدل خبيث وهو التصرف في مال الغير درر اھ (6/ 189)۔