کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم چھ بھائیوں اور والد صاحب نے مشترکہ کمائی سے ایک گھر خریدا، ہمارے ایک چھوٹے بھائی (محمد آصف شہزاد ) نے اس گھر کا سودا ایک شخص کے ساتھ کیا اور بیعانہ کے طور پر ڈھائی لاکھ روپے بھی لے لیے، لیکن ہمارے آپس کے کچھ گھریلو معاملات کی وجہ سےوہ معاملہ ہم ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ شخص کہہ رہا ہے کہ اگر آپ لوگ یہ سودا ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کو ڈھائی لاکھ کے بجائے پانچ لاکھ دینے ہوں گے، سوال یہ ہے کہ اس شخص کا ڈھائی لاکھ کے بجائے پانچ لاکھ روپوں کا مطالبہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیکر ممنون فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں مذکور سودا ختم کرنے کی صورت میں خریدار کا بیعانہ کی اصل رقم (ڈھائی لاکھ) کے علاوہ مزید ڈھائی لاکھ روپوں کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں، جس سے بہر صورت احتراز لازم ہے۔
کما فی بدائع الصنائع: وثمرة هذا الاختلاف إذا تقايلا ولم يسميا الثمن الأول أو سميا زيادة على الثمن الأول أو أنقص من الثمن الأول، أو سميا جنسا آخر سوى الجنس الأول قل أو كثر أو أجلا الثمن الأول فالإقالة على الثمن الأول في قول أبي حنيفة - رحمه الله -: وتسمية الزيادة والنقصان والأجل والجنس الآخر باطلة سواء كانت الإقالة قبل القبض أو بعدها، والمبيع منقول أو غير منقول الخ (5/306)۔
رکشہ کمپنی والے کو ایڈوانس پیمنٹ دے کر ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا/ پلاٹوں کی تعیین اور فائلوں سے قبل ایڈوانس پیمنٹ دینے کی صورت میں قیمت میں رعایت کرنا
یونیکوڈ خرید و فروخت 1