کوئی دوکاندار گاہک کو کہے کہ اگر یہ چیز آج مجھ سے خریدو گے، تو 1000 میں دوں گا، اور اگر دو دن بعد خریدو گے ،تو 2000 میں دوں گا کیا یہ جائز ہے ؟
سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق جس مجلس میں یہ معاملہ کیا جا رہا ہے، اگر اس مجلس میں فریقین کسی قیمت پر اتفاق کر کے بیع مکمل کر دیتے ہیں، تو شرعاً یہ معاملہ جائز ہو گا ،لیکن اگر اسی مجلس میں معاملہ فائنل کرنے کے بجائے مستقبل میں کسی بھی وقت خرید و فروخت پر اتفاق کر لیتے ہیں ،تو اس طرح عقد مکمل نہ ہو گا، بلکہ وعدۂ بیع کہلائیگا، اور مقررّہ وقت پر از سر نو ایجاب و قبول کر کے ایک قیمت متعین کر کے دوبارہ معاملہ کرنا شرعا ضروری ہو گا۔
كما في سنن الترمذي: عن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة» و في الباب عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود: «حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح» والعمل على هذا عند أهل العلم، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما " اھ (3/ 525)۔
وفى المغني لابن قدامة: فصل وقد روي في تفسير بيعتين في بيعة وجه آخر وهو أن يقول بعتك هذا العبد بعشرة نقدا أو بخمسة عشر نسيئة أو بعشرة مكسرة، أو تسعة صحاحا. هكذا فسره مالك، والثوري، وإسحاق وهو أيضا باطل وهو قول الجمهور لأنه لم يجزم له ببيع واحد فأشبه ما لو قال بعتك هذا أو هذا، ولأن الثمن مجهول فلم يصح كالبيع بالرقم المجهول ولأن أحد العوضين غير معين ولا معلوم فلم يصح كما لو قال بعتك أحد عبيدي اھ (4/ 177)۔
رکشہ کمپنی والے کو ایڈوانس پیمنٹ دے کر ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا/ پلاٹوں کی تعیین اور فائلوں سے قبل ایڈوانس پیمنٹ دینے کی صورت میں قیمت میں رعایت کرنا
یونیکوڈ خرید و فروخت 1