 
                    السلام علیکم !
 میں آپ سے یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ جہاد کے معنی کیا ہے؟ یا کب فرض ہوتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جو چار امام ہے، ان کی پیروی کرنا ضروری ہے ؟ ضروری تو نہیں کہ وہ ہر بات صحیح کہے؟
 ۱: جہاد کے لفظی معنی جدو جہد اور کوشش کے آتے ہیں، اور شریعتِ مطہّرہ کی اصطلاح میں جہاد اس محنت اور کوشش کو کہتے ہیں جس سے اعلاء کلمۃ اللہ اور دفع شر الکفار مقصود ہو، اور اس میں قتال بھی داخل ہے، اب اس کی فرضیت سے متعلق سائل کو جن حالات کے بارے میں معلوم کرنا ہو ان کی تفصیل اور موقع و مناسبت بھی ذکر کر دے، ان شاء اللہ حکمِ شرعی سے بھی آگاہ کر دیا جائے گا۔
۲:  غیر منصوص مسائل میں اس شخص کو جو اجتہادی ملکہ نہ رکھتا ہو، اس پر ائمۂ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے، اب اگرچہ ائمہ مجتہدین سے بھی خطاء ممکن ہے ،مگر از روئے حدیث انہیں اجتہادی رائے میں خطا پر بھی اجر ملتا ہے، اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔
 
  ففي تفسير ابن كثير: و في صحيح البخاري عن عمرو بن العاص رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران، وإن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» . و في حديث آخر «إن الله تبارك وتعالى رفع عن أمتي الخطأ. والنسيان وما يكرهون عليه» «3» وقال تبارك وتعالى هاهنا وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به ولكن ما تعمدت قلوبكم وكان الله غفورا رحيما اھ (6/ 339)۔
وفي الدر المختار: وهو لغة: مصدر جاهد في سبيل الله. وشرعا: الدعاء إلى الدين الحق وقتال من لم يقبله شمني. وعرفه ابن الكمال بأنه بذل الوسع في القتال في سبيل الله مباشرة أو معاونة بمال، أو رأي أو تكثير سواد أو غير ذلك. اهـ. (4/ 121)۔