 
                    کیا اسلام تلوار کی نوک پر پھیلا ہے؟ اگر نہیں تو جہاد کا مقصد کیا تھا ؟
 اسلام نہ تو تلوار کے زور سے پھیلا ہے ،اور نہ جہاد کا یہ مقصد ہے کہ لوگوں کو زبردستی کر کے مسلمان کیا جائے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد مبارک میں کسی ایک فرد بشر کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا ، بلکہ اسلام کے عادلانہ و منصفانہ نظام اور صاف ستھری تعلیمات دیکھ کر بہت سخت مخالفت اور آپ کے کمزور حالات کے باوجود لوگ خود بخود دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے تھے ، کتبِ تاریخ و سیر اس کے شاہدِ  عدل ہیں ۔
اگر جہاد کا مقصد یہ ہوتا کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے، تو پھر جزیہ کے احکام مشروع نہ ہوتے، جس کی بنا پر غیر مسلم اپنے دین پر قائم رہ کر اسلامی حکومت کے زیرِ  سایہ امن و سلامتی کے ساتھ عام مسلمانوں کی طرح زندگی گزار نے کا حق حاصل کر لیتے ہیں ۔
جہاد کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا سے ظلم و ستم اور کفر و طغیان کی شان و شوکت ختم ہو جائے، اور دینِ  اسلام اور کلمۂ حق کی بالا دستی قائم ہو جائے، جو کہ امن و سلامتی کا مظہرِ  اتم ہے۔
 
 قال الله تعالى: {لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ } [البقرة: 256]۔
و في تكملة فتح الملهم : إنما شرع الجهاد لتعلو كلمة الله على أرض الله ويكون لها العز والمنعة وليكسر شوكة الجبارين اھ (۳/ ۴)۔
و في البحر الرائق شرح كنز الدقائق: وإنما فرض لإعزاز دين الله تعالى ودفع الشر عن العباد اھ (5/ 76)۔
و في حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله لأنها جزت عن القتل) أي قضت وكفت عنه فإذا قبلها سقط عنه القتل بحر (4/ 196)۔
و في بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: إن لعقد الذمة أحكاما (منها) عصمة النفس لقوله تعالى {قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله} [التوبة: 29] إلى قوله - عز وجل - {حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون} [التوبة: 29] نهى - سبحانه وتعالى - إباحة القتال إلى غاية قبول الجزية، وإذا انتهت الإباحة، تثبت العصمة ضرورة. (ومنها) عصمة المال؛ لأنها تابعة لعصمة النفس وعن سيدنا علي - رضي الله عنه - أنه قال: إنما قبلوا عقد الذمة؛ لتكون أموالهم كأموالنا، ودماؤهم كدمائنا اھ (7/ 111)۔