 
                    محترم جناب مفتی صاحب! براہ کرم آپ بتائیں کہ خود کش حملہ اسلام میں جائز ہے کہ نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو جو بھی خود کش حملہ کرے گا، ہمیشہ جہنم میں رہے گا ؟ اور اگر خودکش حملہ غلط ہے اور اسلام سے اس کا تعلق نہیں ہے تو 1965ء کی جنگ میں انڈیا کی پیش قدم روکنے کے لیے جو لوگ اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر جان دینے والے تھے، ان کا ٹھکانہ کہاں ہے جہنم یا جنت ؟ براہ کرم راہ نمائی فرمائیں۔
 اگر کفار کے ساتھ باقاعدہ جنگ جاری ہو جیسے کہ فلسطین، کشمیر، چیچنیا وغیرہ میں ہے، تو اس حالت میں اگر کوئی مسلمان مجاہد اپنے ساتھ بم یا بارود لے کریا اپنے جسم سے بم باندھ کر دشمن پر حملہ کرے ،اور حملہ کرنے میں حملہ کرنے والے کی اپنی موت یقینی یا ظن غالب کے درجہ میں ہو ،اور حملہ کرنے والے کا ارادہ یہ ہو کہ دشمن کے علاقہ میں پہنچ کر بم یا بارود کو اپنے جسم سے علیحدہ کرکے دشمن یا ان کے تنصیبات پر پھینکے گا اور اس طرح کرنے کا امکان بھی ہو اور اس حملہ سے کفارہ کا جانی یا مالی نقصان کا یقین یا غالب گمان ہو، اور حملہ کرنے والے کا مقصد صرف اللہ تعالی کی رضاء اور شہادت کا حصول ہو ،اور اس اقدام سے مسلمانوں کی ہیبت و رعب کفار کے دلوں میں بیٹھتی ہو ،اور مسلمانوں میں جذبہ شہادت و بہادری پیدا ہوتا ہو، یا اس حملہ سے کوئی معتد بہ اور قابل اعتبار دینی منفعت مسلمانوں کو حاصل ہو تو ان تمام صورتوں میں خودکش بمبار حملہ مستحسن اور باعث اجر ہے۔ اور ایسے بہادرانہ اقدام کرنے والے کی شہادت حقیقی شہادت ہے، جس پر قرآن وحدیث میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں،اور اگر اس کا ارادہ بم یا با رود کو اپنے سے علیحدہ کرنے کا نہ ہو، بلکہ پہلے اپنے آپ کو شہید کرنے کا اور پھر اس کے ذریعے دشمن کو مارنے یا ان کی تنصیبات کو اڑانے کا مقصد ہو تو اس صورت کا واضح اور صریح حکم فقہی عبارات وغیرہ میں نہیں ملا، لہذا اس میں احتیاط کی ضرورت ہے۔
 
 کمافي التنزيل: قال الله تعالى {إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ } [التوبة: 111]۔
و في فتح الباري لابن حجر: وأما مسألة حمل الواحد على العدد الكثير من العدو فصرح الجمهور بأنه إن كان لفرط شجاعته وظنه أنه يرهب العدو بذلك أو يجرئ المسلمين عليهم أو نحو ذلك من المقاصد الصحيحة فهو حسن ومتى كان مجرد تهور فممنوع ولا سيما إن ترتب على ذلك وهن في المسلمين والله أعلم اھ (8/ 185)۔
و في أحكام القرآن لابن العربي: الرابع: لا تدخلوا على العساكر التي لا طاقة لكم بها. الخامس: لا تيأسوا من المغفرة؛ قاله البراء بن عازب. قال الطبري: هو عام في جميعها لا تناقض فيه، وقد أصاب إلا في اقتحام العساكر؛ (إلی قوله) والصحيح عندي جوازه؛ لأن فيه أربعة أوجه: الأول: طلب الشهادة. الثاني: وجود النكاية. الثالث: تجرية المسلمين عليهم. الرابع: ضعف نفوسهم ليروا أن هذا صنع واحد، فما ظنك بالجميع اھ (1/ 166)/
و في حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله لم يلزمه القتال) يشير إلى أنه لو قاتل حتى قتل جاز، لكن ذكر في شرح السير أنه لا بأس أن يحمل الرجل وحده وإن ظن أنه يقتل إذا كان يصنع شيئا بقتل أو بجرح أو بهزم فقد فعل ذلك جماعة من الصحابة بين يدي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يوم أحد ومدحهم على ذلك فأما إذا علم أنه لا ينكي فيهم فإنه لا يحل له أن يحمل عليهم؛ لأنه لا يحصل بحملته شيء من إعزاز الدين، بخلاف نهي فسقة المسلمين عن منكر إذا علم أنهم لا يمتنعون بل يقتلونه فإنه لا بأس بالإقدام اھ (4/ 127) ۔
كما في التاتارخانية : ولا بأس للرجل أن يحمل على المشركين وحده وإن كان غالب رأيه أنه يقتل إذا كان في غالب رأيه ان ينكي فيهم نكايۃ لا یقتل أو لا یجرحأاو عزيمة وإن كان غالب رأيه أنه لا ينكى فيهم نكايه لا يقتل ولا يجرح ولا هزيمة ويقتل هو فانه لا يباح له أن يحمل وحده ، وفى الخانية : ولا بأس للرجل الواحد من المسلمين أن يحمل على الف من المشركين إن كان يطمع السلامة أو النكاية بهم وان كان لا يطبع احداهما كره اھ(۵/ ۲۵۷)۔
هكذا في الفتاوى الهندية: قال محمد رحمه الله تعالى ولا بأس بأن يحمل الرجل وحده على المشركين وإن كان غالب رأيه أنه يقتل إذا كان في غالب رأيه أنه ينكي فيهم نكاية بقتل أو جرح أو هزيمة وإن كان غالب رأيه أنه لا ينكي فيهم أصلا لا بقتل ولا بجرح ولا هزيمة ويقتل هو فإنه لا يباح له أن يحمل وحده والقياس أن يباح له ذلك في الأحوال كلها وإن علم أنه يقتل كذا في المحيط اھ (5/ 353) واللہ اعلم بالصواب