(+92) 0317 1118263

احکام جہاد

خود کش حملہ اسلام میں جائز ہے کہ نہیں ؟

فتوی نمبر :
3378
| تاریخ :
عبادات / جہاد / احکام جہاد

خود کش حملہ اسلام میں جائز ہے کہ نہیں ؟

محترم جناب مفتی صاحب! براہ کرم آپ بتائیں کہ خود کش حملہ اسلام میں جائز ہے کہ نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو جو بھی خود کش حملہ کرے گا، ہمیشہ جہنم میں رہے گا ؟ اور اگر خودکش حملہ غلط ہے اور اسلام سے اس کا تعلق نہیں ہے تو 1965ء کی جنگ میں انڈیا کی پیش قدم روکنے کے لیے جو لوگ اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر جان دینے والے تھے، ان کا ٹھکانہ کہاں ہے جہنم یا جنت ؟ براہ کرم راہ نمائی فرمائیں۔

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

اگر کفار کے ساتھ باقاعدہ جنگ جاری ہو جیسے کہ فلسطین، کشمیر، چیچنیا وغیرہ میں ہے، تو اس حالت میں اگر کوئی مسلمان مجاہد اپنے ساتھ بم یا بارود لے کریا اپنے جسم سے بم باندھ کر دشمن پر حملہ کرے ،اور حملہ کرنے میں حملہ کرنے والے کی اپنی موت یقینی یا ظن غالب کے درجہ میں ہو ،اور حملہ کرنے والے کا ارادہ یہ ہو کہ دشمن کے علاقہ میں پہنچ کر بم یا بارود کو اپنے جسم سے علیحدہ کرکے دشمن یا ان کے تنصیبات پر پھینکے گا اور اس طرح کرنے کا امکان بھی ہو اور اس حملہ سے کفارہ کا جانی یا مالی نقصان کا یقین یا غالب گمان ہو، اور حملہ کرنے والے کا مقصد صرف اللہ تعالی کی رضاء اور شہادت کا حصول ہو ،اور اس اقدام سے مسلمانوں کی ہیبت و رعب کفار کے دلوں میں بیٹھتی ہو ،اور مسلمانوں میں جذبہ شہادت و بہادری پیدا ہوتا ہو، یا اس حملہ سے کوئی معتد بہ اور قابل اعتبار دینی منفعت مسلمانوں کو حاصل ہو تو ان تمام صورتوں میں خودکش بمبار حملہ مستحسن اور باعث اجر ہے۔ اور ایسے بہادرانہ اقدام کرنے والے کی شہادت حقیقی شہادت ہے، جس پر قرآن وحدیث میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں،اور اگر اس کا ارادہ بم یا با رود کو اپنے سے علیحدہ کرنے کا نہ ہو، بلکہ پہلے اپنے آپ کو شہید کرنے کا اور پھر اس کے ذریعے دشمن کو مارنے یا ان کی تنصیبات کو اڑانے کا مقصد ہو تو اس صورت کا واضح اور صریح حکم فقہی عبارات وغیرہ میں نہیں ملا، لہذا اس میں احتیاط کی ضرورت ہے۔

مأخَذُ الفَتوی

کمافي التنزيل: قال الله تعالى {إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ } [التوبة: 111]۔
و في فتح الباري لابن حجر: وأما مسألة حمل الواحد على العدد الكثير من العدو فصرح الجمهور بأنه إن كان لفرط شجاعته وظنه أنه يرهب العدو بذلك أو يجرئ المسلمين عليهم أو نحو ذلك من المقاصد الصحيحة فهو حسن ومتى كان مجرد تهور فممنوع ولا سيما إن ترتب على ذلك وهن في المسلمين والله أعلم اھ (8/ 185)۔
و في أحكام القرآن لابن العربي: الرابع: لا تدخلوا على العساكر التي لا طاقة لكم بها. الخامس: لا تيأسوا من المغفرة؛ قاله البراء بن عازب. قال الطبري: هو عام في جميعها لا تناقض فيه، وقد أصاب إلا في اقتحام العساكر؛ (إلی قوله) والصحيح عندي جوازه؛ لأن فيه أربعة أوجه: الأول: طلب الشهادة. الثاني: وجود النكاية. الثالث: تجرية المسلمين عليهم. الرابع: ضعف نفوسهم ليروا أن هذا صنع واحد، فما ظنك بالجميع اھ (1/ 166)/
و في حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله لم يلزمه القتال) يشير إلى أنه لو قاتل حتى قتل جاز، لكن ذكر في شرح السير أنه لا بأس أن يحمل الرجل وحده وإن ظن أنه يقتل إذا كان يصنع شيئا بقتل أو بجرح أو بهزم فقد فعل ذلك جماعة من الصحابة بين يدي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يوم أحد ومدحهم على ذلك فأما إذا علم أنه لا ينكي فيهم فإنه لا يحل له أن يحمل عليهم؛ لأنه لا يحصل بحملته شيء من إعزاز الدين، بخلاف نهي فسقة المسلمين عن منكر إذا علم أنهم لا يمتنعون بل يقتلونه فإنه لا بأس بالإقدام اھ (4/ 127) ۔
كما في التاتارخانية : ولا بأس للرجل أن يحمل على المشركين وحده وإن كان غالب رأيه أنه يقتل إذا كان في غالب رأيه ان ينكي فيهم نكايۃ لا یقتل أو لا یجرحأاو عزيمة وإن كان غالب رأيه أنه لا ينكى فيهم نكايه لا يقتل ولا يجرح ولا هزيمة ويقتل هو فانه لا يباح له أن يحمل وحده ، وفى الخانية : ولا بأس للرجل الواحد من المسلمين أن يحمل على الف من المشركين إن كان يطمع السلامة أو النكاية بهم وان كان لا يطبع احداهما كره اھ(۵/ ۲۵۷)۔
هكذا في الفتاوى الهندية: قال محمد رحمه الله تعالى ولا بأس بأن يحمل الرجل وحده على المشركين وإن كان غالب رأيه أنه يقتل إذا كان في غالب رأيه أنه ينكي فيهم نكاية بقتل أو جرح أو هزيمة وإن كان غالب رأيه أنه لا ينكي فيهم أصلا لا بقتل ولا بجرح ولا هزيمة ويقتل هو فإنه لا يباح له أن يحمل وحده والقياس أن يباح له ذلك في الأحوال كلها وإن علم أنه يقتل كذا في المحيط اھ (5/ 353) واللہ اعلم بالصواب

واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد رمضان انور عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 3378کی تصدیق کریں
0     322
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • لونذی (باندی) سے صحبت کرنا

    یونیکوڈ   احکام جہاد 1
  • دورانِ جہاد پکڑے جانے والے مرد وخواتین کے بارے میں شرعی حکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کا معنی کیا ہے اور یہ کب فرض ہوتاہے؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • خود کش حملہ اسلام میں جائز ہے کہ نہیں ؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کے معانی اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کی حقیقت کیا ہےَ؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کب فرض ہے؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • کیا اسلام بزورِ تلوار پھیلا ہے؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کے متعلق کتابوں کے نام

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی باندیوں کا حکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • ہشت گردوں کو قتل کرنے اور ان کے خلاف جہاد کرنے کاحکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • کفار کے خلاف جوابی کاروائی کرنے کاحکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • موجودہ دور میں باندی کا وجود کیسے ممکن ہے؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کی فرضیت

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • موجودہ دور میں جہادپر جانے کی شرعی حیثیت

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • موجودہ دور میں جہاد کاحکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • موجودہ دور میں کیا پاکستانیوں پر جہاد فرض ہے؟

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کب فرض عین ہوتا ہے اور والدین کی اجازت کے بغیر جہادکرنے کاحکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • موجودہ دور میں کنیز اور باندی سے مباشرت کا حکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • والدین کی اجازت کےبغیر جہاد پر جانے کاحکمْ

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • گنا ہوں سے بچنے کے لئے جہاد پر جانے کا حکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • موجودہ دور میں باندیوں کاحکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • والدین کی اجازت کے بغیر جہاد کرنے کاحکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • مقبوضہ کشمیر میں جہاد کی فرضیت کا حکم

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
  • جہاد کا مذاق اڑانا

    یونیکوڈ   احکام جہاد 0
Related Topics متعلقه موضوعات