 
                    السلام علیکم! 
ایک انیس سالہ کنوارا (غیر شادی شدہ) نوجوان جہاد میں جانا چاہتا ہے، اس کے والد کی عمر پینتالیس سال جب کے والدہ کی 38 سال ہے، دونوں کو کوئی معذوری يا بيماري لاحق نہیں ،اور مالی طور سے بھی تنگی نہیں، والد صاحب سعودی عرب میں 15 سے 20 ہزار ریال تک کی تنخواہ پر ملازمت کرتے ہے، جس کے والدہ اور دیگر بہن بھائی بھی والد کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم ہیں، ان حالات میں جہاد پر جانے کے لئے والدین کی اجازت کس حد تک ضروری ہے ؟ جس کی والدہ کو بیٹے سے بہت محبت ہو اور اسے انجینئر بنانے کا شوق ہو اور اس کے لئے انہوں نے بچپن سے محنت بھی کی ہو ،لیکن اب بیٹا یو نیورسٹی میں داخلہ لینے کی بجائے جہاد میں جانا چاہتا ہو۔ 
 سائل نے یہ نہیں لکھا کہ مذکور لڑکا جہاد کے لئے کہاں جارہا ہے ، تاہم ہمارے علم کے مطابق سعودی عرب کے کسی حصے پر دشمن نے ایسا حملہ نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے ان کی سرکاری فوج ناکافی ہو گئی ہو، اور عام عوام پر جہاد فرض ہو گیا ہو ، اس لئے مذکور لڑکے کو والدین کی اجازت سے ہی جہاد جیسے دینی فریضے کی ادائیگی کے لئے نکلنا چاہئیے ، اگر والدین اجازت نہ دیں، تو اس کو جہاد یا کسی ایسے سفر میں نکلنا جس میں جان کا اندیشہ ہو ، جائز نہیں۔ 
 
 كما في الدر المختار: (لا) يفرض (على صبي) وبالغ له أبوان أو أحدهما؛ لأن طاعتهما فرض عين «وقال - عليه الصلاة والسلام - للعباس بن مرداس لما أراد الجهاد الزم أمك فإن الجنة تحت رجل أمك» سراج وفيه لا يحل سفر فيه خطر إلا بإذنهما اھ (4/ 125)۔