 
                    السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!
(۱)  :میرا سوال یہ ہے  کہ باندی بنانا کیسا ہے ؟ اور اس کی کیا شرائط ہیں؟ تفصیل سے جواب دیں۔
(2) :میرا دوسرا سوال یہ ہے کیا انشورنس کرانا اسلام میں جائز ہے ؟ اگر ہے تو اس کی شرائط کیا ہیں ؟ شکریہ
 واضح ہو کہ جہادِ  شرعی کے نتیجے میں قید ہونے والے مرد قیدیوں کو غلام اور ان کی عورتوں کو باندیاں بنانا شرعاً جائز  اور درست ہے ، لازم اور واجب نہیں کہ اس کے ترک سے گناہ لازم آئے ۔
اور پھر اقوامِ متحدہ کے تحت جن جن ممالک نے ایسے قیدیوں کے سلسلہ میں یہ عہد کر لیا ہے کہ انہیں غلام اور باندی نہیں بنایا جائے گا، تو اس معاہدہ کی بناء پر رکن ممالک کے لئے اس کی پاسداری شرعاً بھی لازم ہے ، اس لئے موجودہ دور میں غلاموں اور باندیوں کا وجود نہیں۔ اور جو لوگ کسی دوسرے کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ غلام یا باندی والا رویّہ  رکھتے ہیں وہ گناہ گار ہیں۔ 
۲: مروّجہ انشورش پالیسیاں اور انشورنس کمپنیوں کا کام ربا و قمار اور غرر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً نا جائز ہے، اس لئے ان کی کوئی پالیسی لینے سے احتراز لازم ہے۔
 
 قال الله عز وجل : {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ } [المائدة: 90]۔
و في أحكام القرآن للجصاص: وأما الميسر فقد روي عن علي أنه قال الشطرنج من الميسر وقال عثمان وجماعة من الصحابة والتابعين النرد وقال قوم من أهل العلم القمار كله من الميسر اھ (4/ 127)۔
كما في تكمة فتح الملهم : فالإسلام أباح الاسترقاق بشرط أن يكون في جهاد شرعی ضد الكفار (إلى قوله ) ثم إن الاسترقاق ليس السبيل الوحيد لمن أسر في جهاد شرعی وإنما الإمام له في أمرهم خيارات أربعة: إما أن يقتلهم ، وإما أن يسترقهم، واما أن يطلقهم بأخذ الفدية ، وإما أن يمن عليهم، فيطلقهم بغير أحد شئى ، فليس الاسترقاق في الاسلام شيئًا واجبا، وإنما هو إباحة في جملة إباحات أربعة اھ (جلدا صفحه ۲۶) -
وفيه : وينبغي أن يتنبه هنا إلى شي مهم، وهو أن اكثر أقوام العالم قد أحدثت اليوم معاهدة فيما بينهما ، وقررت أنها لا تسترق اسيرا من أسارى الحروب ، واكثر البلاد الإسلامية اليوم من شركاء هذه المعاهدة ولا سيما أعضاء الامم المتحدة ،، فلا يجوز لملكة إسلامية اليوم أن تسترق أسيرًا ما دامت هذه المعاهدة باقية اھ (۱/ ۲۷۲)۔