 
                    موجودہ دور میں جتنا مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ،اور کفار کی فوجیں ہمارے خلاف ایک ہیں تو اس صورت میں ہماری کیاذمہ داری ہے، تبلیغی حضرات فرماتے ہیں کہ اس امت کے ایک ایک فرد پر پوری امت کی ذمہ داری ہے،تو ہمارے مظلوم بہن بھائی ہیں ان کی مدد کرنا کیا ہم پر فرض نہیں ؟ موجودہ دور میں جہاد فرض ہے یا نہیں؟ ایک مولوی صاحب فرما رہے تھے کہ جہاد فرض ہو گیا ہے ،مگر دوسرے حضرات سے معلوم کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جہاد کی شرائط نہیں پائی جاتی، جہاد کی کتنی شرائط ہیں؟ اور اب جہاد فرض نہیں ہوا تو پھر کب ہو گا ؟
 بحالتِ موجودہ جہاں جہاں پر کافروں اور مشرکوں نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے ،اور وہاں کی حکومت اپنے مسلمانوں کو مذہبی آزادی نہیں دے رہی ، بلکہ ان کے مذہبی اور دینی شعار کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے، اس لئے ان مقامات میں جہاد فرضِ  عین ہو چکا ہے۔ لہذا اگر ان مقامات کے مسلمان اس جہاد کے لئے کافی نہ ہوں تو ان قریب رہنے والوں پر بھی فرضِ  عین ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس ترتیب سے پوری دنیا کے سارے مسلمانوں پر فرض ہو سکتا ہے، لیکن جہاد کے فرضِ عین ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہاں کے سارے مسلمان اسلحہ لیکر میدانِ جنگ میں نکل جائیں اور دشمن سے بھڑ جائیں بلکہ جو حکمت عملی کا تقاضا ہو اس پر عمل کیا جائے، اگر حکمتِ عملی کا تقاضا یہ ہو کہ بعض مسلمان اسلحہ لیکر میدانِ  جنگ میں نکل جائیں اور بعض مسلمان دوسرے ذرائع سے ان کی مدد کریں تو اس پر عمل کیا جائے اور دیگر ممالک کے مسلمانوں پر موجودہ جہاد کے فرضِ عین نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں یہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ بلکہ المسلمون کلھم کجسد واحد کے تحت ان پر یہ فرض بنتا ہے کہ حکمتِ عملی کے پیش نظر اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں اور جانی و مالی تعاون کریں اور یہاں کے مسلمان حکام پر دباؤ ڈالیں کہ یہ ہر ممکنہ کوشش کر کے غیر مسلم حکام پر زور ڈالیں تاکہ وہ لوگ ان مظلوم مسلمانوں سے اپنا ظلم ستم کا پنجہ اٹھائیں اور ان کے جائز مطالبات پورے کر کے انہیں مذہبی آزادی دیدیں اور اسی طرح ان پر یہ بھی لازم ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی رہائی کے لیے اللہ تعالی کے حضور دعا بھی کریں ۔
 
 کمافي الفتاوى الهندية: قال بعضهم الجهاد قبل النفير تطوع وبعد النفير يصير فرض عين وعامة المشايخ رحمهم الله تعالى قالوا الجهاد فرض على كل حال غير أنه قبل النفير فرض كفاية وبعد النفير فرض عين وهو الصحيح ومعنى النفير أن يخبر أهل مدينة أن العدو قد جاء يريد أنفسكم وذراريكم وأموالكم فإذا أخبروا على هذا الوجه افترض على كل من قدر على الجهاد من أهل تلك البلدة أن يخرج للجهاد وقبل هذا الخبر كانوا في سعة من أن يخرجوا ثم بعد مجيء النفير العام لا يفترض الجهاد على جميع أهل الإسلام شرقا وغربا فرض عين وإن بلغهم النفير وإنما يفرض فرض عين على من كان يقرب من العدو وهم يقدرون على الجهاد أما على من وراءهم ممن يبعد من العدو فإنه يفترض فرض كفاية لا فرض عين حتى يسعهم تركه فإذا احتيج إليهم بأن عجز من كان يقرب من العدو عن المقاومة مع العدو أو تكاسلوا ولم يجاهدوا فإنه يفترض على من يليهم فرض عين ثم وثم إلى أن يفرض على جميع أهل الأرض شرقا وغربا على هذا الترتيب اھ (2/ 188) واللہ اعلم بالصواب