 
                    مفتی صاحب! کیا جہاد فرضِ عین ہے یا فرضِ کفایہ؟
 واضح ہو لفظِ جہاد لغت میں بمعنی محنت و مشقت کے ہے ، اور اصطلاحِ شرع میں اعلائے کلمۃ اللہ اور کفار کو مغلوب کرنے کے لئے اپنی پوری جدوجہد کرنے اور کفار سے لڑنے میں اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کا نام جہاد ہے۔
عرفی جہاد ( یعنی قتال مع  الکفار )کی دو قسمیں ہیں (1) :فرضِ  کفایہ (۲) :فرضِ عین۔
 (1) :جہاد فرض کفایہ : اگر اسلام کو عالم میں غلبہ اور شوکت حاصل ہے، لیکن وقت کا خلیفہ صرف فریضۂ جہاد کو زندہ رکھنے کے لئے کسی علاقہ میں کفار سے مقابلہ کے لئے کسی جماعت کو روانہ کرتا ہے ،تو شرعاً یہ قسم اقدامی اور فرض کفایہ کہلاتی ہے ۔
 (۲) جہادِ  فرضِ  عین : اگر کفار نے مسلمانوں کے کسی علاقہ پر قبضہ کر لیا یا چڑھائی کر کے ان کے اموال لوٹے اور وہاں کے لوگوں کو مارا، عورتوں کو قید کر لیا اور مسلمان دفاع کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ یہ جہاد دفاعی ہے۔ یہ ابتداء علاقہ کے لوگوں پر فرضِ عین ہو جاتا ہے، لیکن اگر ان میں مقابلہ کی طاقت نہیں تو رفتہ رفتہ مشرق سے مغرب تک تدریجاً تمام مسلمانوں پر فرض ہو جاتا ہے ۔ 
 
 کما في فتح الباري لابن حجر: والجهاد بكسر الجيم أصله لغة المشقة يقال جهدت جهادا بلغت المشقة وشرعا بذل الجهد في قتال الكفار اھ (6/ 3)۔
و في تكملة فتح الملهب : إن الجهاد لا يختص بماشرة القتل وإنما هو كل جهد يبذل في سبيل اعلاء كلمة الله وكسر الشوكة الكفر والكفار اھ (۳/ ۴)۔
و في الدر المختار: (هو فرض كفاية ابتداء إن قام به البعض) ولو عبيدا أو نساء (سقط عن الكل وإلا) يقم به أحد في زمن ما (أثموا بتركه) أي أثم الكل من المكلفين اھ (4/ 123)۔
وفيه ايضا: (وفرض عين إن هجم العدو فيخرج الكل ولو بلا إذن) (4/ 127)۔
و في الدر المختار: (قوله وفرض عين) أي على من يقرب من العدو، فإن عجزوا أو تكاسلوا فعلى من يليهم حتى يفترض على هذا التدريج على كل المسلمين شرقا وغربا اھ (4/ 126)۔