 
                    السلام علیکم !
 جہاد کے لیے والدین کی اجازت لینا لازمی ہے یا نہیں ؟ 
(۲): جہاد فرضِ  عین ہے یا فرضِ کفایہ ہے؟
 (۳) :جہاد کب فرضِ عین ہوتا ہے، اور کب فرضِ کفایہ ہوتا ہے ؟ 
(۴) میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور کیا والدین کی ناراضگی پر مجھے جہاد پر جانا چاہیئے یا نہیں ؟
 واضح ہو کہ اگر کسی مسلم ملک یا علاقہ پر کفارحملہ کریں ،تو وہاں کے لوگوں پر جہاد فرضِ  عین ہو جاتا ہے، لیکن جب وہاں کے مسلمان اس جہاد کے لئے کافی نہ ہوں ،تو ان سے قریب رہنے والوں پر بھی فرضِ  عین ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس ترتیب سے پوری دنیا کے سارے مسلمانوں پر فرض ہو سکتا ہے، لیکن جہاد کے فرضِ عین ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہاں کے سارے مسلمان اسلحہ لیکر میدان جنگ میں نکل جائیں ،اور دشمن سے بھڑ جائیں، بلکہ حکمت عملی کا جو بھی تقاضہ ہو اس پر عمل کیا جائے اگر حکمت عملی کا تقاضہ یہ ہو کہ بعض مسلمان اسلحہ لیکر میدان جنگ میں نکل جائیں ،اور بعض مسلمان دوسرے ذرائع سے ان کی مدد کریں، تو اس پر عمل کر لیا جائے، اور دیگر ممالک کے مسلمانوں پر موجودہ جہاد کے فرض عین نہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں، بلکہ (المسلمون کلھم کجسد واحد) کے تحت ان پر یہ فرض بنتا ہے کہ حکمتِ عملی کے پیش نظر اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں اور جانی و مالی تعاون کریں مذکورہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس وقت پورے عالم کے باشندوں پر جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے، لہذا آپ پر والدین کی فرمانبرداری ضروری ہے۔ ان کی اجازت کے بغیر جہاد میں شرکت نہ کریں ہاں انہیں راضی کریں اگر وہ راضی ہوں تو شرکت کریں اور جب تک وہ راضی نہ ہوں آپ دوسرے طریقوں سے مجاہدین کی مدد کریں، کیونکہ ذخیرۂ احادیث میں اس قسم کے بے شمار واقعات  ہیں کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین اپنے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شرکت کے لئے  آ گئے،مگر آپ ﷺ نے واپس فرمادیا اور انہیں والدین کی اطاعت کا حکم دیا ۔مثلاً  ایک حدیث ث میں ہے کہ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یارسول اللہ میں جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے پاس مشورہ کے لئے حاضر ہوا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تیری والدہ حیات ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا سو انہیں کے پاس رہو اس لئے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔مشکوۃ بحوالہ احمد و نسائی اور بیھقی ( ج ۲ ص ۴۳۹) ۔
 
 ففي حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله بل يفرض على الأقرب فالأقرب إلخ) أي يفرض عليهم عينا وقد يقال كفاية بدليل أنه لو قام به الأبعد حصل المقصود فيسقط عن الأقرب، لكن هذا ذكره في الدرر فيما لو هجم العدو وعبارة الدرر وفرض عين إن هجموا على ثغر من ثغور الإسلام، فيصير فرض عين على من قرب منهم، وهم يقدرون على الجهاد ونقل صاحب النهاية عن الذخيرة أن الجهاد إذا جاء النفير إنما يصير فرض عين على من يقرب من العدو، فأما من وراءهم ببعد من العدو فهو فرض كفاية عليهم، حتى يسعهم تركه إذا لم يحتج إليهم فإن احتيج إليهم بأن عجز من كان يقرب من العدو عن المقاومة مع العدو أو لم يعجزوا عنها، لكنهم تكاسلوا ولم يجاهدوا فإنه يفترض على من يليهم فرض عين كالصلاة والصوم، لا يسعهم تركه ثم وثم إلى أن يفترض على جميع أهل الإسلام شرقا وغربا على هذا التدريج اھ (4/ 124)۔
و في الدر المختار: (لا) يفرض (على صبي) وبالغ له أبوان أو أحدهما؛ لأن طاعتهما فرض عين «وقال - عليه الصلاة والسلام - للعباس بن مرداس لما أراد الجهاد الزم أمك فإن الجنة تحت رجل أمك» اھ (4/ 125)۔