 
                    (۱):آج کل کے زمانے میں کیا جہاد پاکستانیوں پر فرضِ  عین ہے یا فرضِ  کفایہ ؟ 
(۲) : اگر جہاد فرضِ  عین ہو گیا ہے تو کیا میں والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جا سکتا ہوں جبکہ بیوی بچے بھی ہوں؟
 (۳): ایسی صورت میں جہاد پر میرا جانا ٹھیک ہے؟
 ہماری معلومات کے مطابق بحالتِ موجودہ پاکستانیوں پر پاکستان میں رہتے ہوئے منتخب حکومتی نمائندوں کے خلاف جہاد فرضِ  عین نہیں ہوا، اور نہ ہی اس سلسلہ میں  بیوی بچوں کو چھوڑ کر کہیں جانا لازم ہے، البتہ بحالتِ مو جودہ فلسطین ، بوسنیا، عراق اور کشمیر و افغانستان میں کافروں اور ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے ،وہاں کی حکومت مسلمانوں کو مذہبی آزادی نہیں دے رہی ، بلکہ ان کے مذہبی اور دینی شعار کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے، اس لئے وہاں پر جہاد فرض ہو چکا ہے ،لہذا اگر ان مقامات کے مسلمان اس جہاد کے لئے کافی نہ ہوں ،تو ان کے قریب رہنے والوں پر بھی فرضِ  عین ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس ترتیب سے پوری دنیا کے سارے مسلمانوں پر فرض ہو سکتا ہے، لیکن جہاد کے فرض عین ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہاں کے سارے مسلمان اسلحہ لیکر میدان جنگ میں نکل جائیں ،اور دشمن سے بھڑ جائیں ،بلکہ جو حکمت عملی کا تقاضا ہو ،اس پر عمل کیا جائے، اگر حکمتِ عملی کا تقاضا یہ ہو کہ بعض مسلمان اسلحہ لیکر میدان جنگ میں نکل جائیں، اور بعض مسلمان دوسرے ذرائع سے ان کی مدد کریں ،تو اس پر عمل کیا جائے ،اور دیگر ممالک کے مسلمانوں پر موجودہ جہاد کے فرض عین نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ لوگ ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں ۔ بلکہ  (المسلمون کلهم کجسد واحد) کے تحت ان پر یہ فرض بنتا ہے کہ حکمتِ عملی کے پیش نظر اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں، اور جانی و مالی تعاون کریں، اور یہاں کے مسلمان حکام پر دباؤ ڈالیں کہ یہ ہر ممکن کوشش کر کے غیر مسلم حکام پر دباؤ  ڈالیں ،تاکہ وہ لوگ ان مظلوم مسلمانوں سے اپنا ظلم و ستم کا پنجہ اٹھائیں، اور ان کے جائز مطالبات پورے کر کے انہیں مذہبی آزادی دیدیں، اور اسی طرح ان پر یہ  بھی  لازم ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی رہائی کے لئے اللہ تعالی کے حضور دعا کریں۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس وقت پورے عالم کے باشندوں پر جہاد فرضِ عین نہیں ہوا، بلکہ فرضِ  کفایہ ہے، لہذا آپ پر والدین کی فرمانبرداری ضروری ہے، ان کی اجازت کے بغیر جہاد کشمیر وغیرہ میں شرکت نہ کریں ہاں انہیں راضی کریں اگر وہ راضی ہوں تو شرکت کریں اور جب تک وہ راضی نہ ہوں آپ دوسرے طریقوں سے مجاہدین کی مدد کریں، کیونکہ ذخیرۂ احادیث میں اس قسم کے بے شمار واقعات  ہیں کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین اپنے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شرکت کے لئے  آ گئے،مگر آپ ﷺ نے واپس فرمادیا اور انہیں والدین کی اطاعت کا حکم دیا ۔ مثلاً   ایک حدیث ث میں ہے کہ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یارسول اللہ میں جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے پاس مشورہ کے لئے حاضر ہوا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تیری والدہ حیات ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  :سو  انہیں کے پاس رہو اس لئے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔(مشکوۃ بحوالہ احمد و نسائی اور بیہقی  ج ۲ ص ۴۳۹) ۔
 
 کما في حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله بل يفرض على الأقرب فالأقرب إلخ) أي يفرض عليهم عينا وقد يقال كفاية بدليل أنه لو قام به الأبعد حصل المقصود فيسقط عن الأقرب، لكن هذا ذكره في الدرر فيما لو هجم العدو وعبارة الدرر وفرض عين إن هجموا على ثغر من ثغور الإسلام، فيصير فرض عين على من قرب منهم، وهم يقدرون على الجهاد ونقل صاحب النهاية عن الذخيرة أن الجهاد إذا جاء النفير إنما يصير فرض عين على من يقرب من العدو، فأما من وراءهم ببعد من العدو فهو فرض كفاية عليهم، حتى يسعهم تركه إذا لم يحتج إليهم فإن احتيج إليهم بأن عجز من كان يقرب من العدو عن المقاومة مع العدو أو لم يعجزوا عنها، لكنهم تكاسلوا ولم يجاهدوا فإنه يفترض على من يليهم فرض عين كالصلاة والصوم، لا يسعهم تركه ثم وثم إلى أن يفترض على جميع أهل الإسلام شرقا وغربا على هذا التدريج اھ (4/ 124)۔
و في الدر المختار: (لا) يفرض (على صبي) وبالغ له أبوان أو أحدهما؛ لأن طاعتهما فرض عين «وقال - عليه الصلاة والسلام - للعباس بن مرداس لما أراد الجهاد الزم أمك فإن الجنة تحت رجل أمك» اھ (4/ 125)۔
و في حاشية ابن عابدين (رد المحتار): وأما غير هؤلاء كالزوجة والأولاد والأخوات والأعمام فإنه يخرج بلا إذنهم إلا إذا كانت نفقتهم واجبة عليه وخاف عليهم الضيعة اهـ (4/ 125) ۔