 
                    السلام علیکم !
 ہمارے ہاں اس شہر میں کئی مہینوں سے سیاسی دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت سارے لوگ قتل کیے جا رہے ہیں ۔ کیا اس قتل و غارت کو دیکھ کہ ہمیں کچھ نہیں کرنا چاہیئے؟ یا اس معاشرے میں مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکنے کے لئے ہمیں کچھ کرنا چاہئیے؟
 میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم کسی کو دیکھیں جو کسی مسلمان کو کسی سیاسی وجہ سے قتل کرے تو اس صورت میں ہمیں اجازت ہے کہ ہم ان قاتلوں کے خلاف جہاد کریں، اور ان کو قتل کر ڈالیں یا پھر ہماری کیا ذمہ داری ہوگی ؟
 ریاست  اور معاشرے میں فساد پھیلانا اور قتل و غارت کرنا گناہِ کبیرہ ہیں، ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ، مگر رعایا اور عوام کے جان و مال اور عزت کا تحفظ ریاست و حکومت کی اصل ذمہ داری ہے، اس لئے عوام کو ان حالات میں رجوع الی اللہ، اور دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ اگر کسی جرائم پیشہ شخص کے بارے میں معلوم ہو تو متعلقہ ذمہ داروں کو آگاہ کر دینا چاہیئے ۔ خود قانون ہاتھ میں لے کر قتل و غارت اور فساد میں حصہ لینا درست نہیں،اس سے احتراز چاہئیے ۔
 
 كما في قوله تعالى: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } [المائدة: 33]۔
و في التاتارخانية : وان وقعت الفتنة بين فريقين باغيين يقتتلان لاجل الدنيا والملك كان على الرجل أن يلزم بيته ولا يخرج إلى أحدهما، وكذا لو وقع القتال بين محلتين للحمية والعصبية لا ينبغي لأحدان يعاون اهل احدى المحلتين ثم يحل للامام العدل ان يقاتلهم وان لم يبدوا بقتاله، وهذا مذهبنا (إلى قوله) والمروى عن أبي حنيفة لزوم البيت حال عدم الأمام أما اعانة إمام الحق فمن الواجب عند القدرة اھ ( ۵/ ۳۵۸ )۔