 
                    السلام علیکم مفتی صاحب! میں ایک شادی شدہ مرد ہوں میرے دو بچے ہیں، ایک پندرہ مہینے کا ہے، اور دوسرا چار سال کا، میں بہت بار اپنی گناہوں سے تو بہ کر چکا ہوں، پھر ہر دو مہینے بعد میں گناہوں کی طرف آجاتا ہوں، اگر میں خود کو مسجد اور گھر تک محدود رکھو تو ایمان کی حفاظت کر سکتا ہوں، تھوڑا بھی دنیا کی طرف مائل ہو جاؤ تو سارا تقویٰ ختم ہو جاتا ہے، میں اس گناہوں کے ماحول میں تنگ آگیا ہوں ،آخرت کا بہت خوف ہے کہ کہی گناہ کرتے ہوئے موت آگئی ،تو میری آخرت خراب ہو جائے گی۔ اب میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس گناہ کے ماحول سے نکل کر جہاد کے لیے چلا جاؤ، تا کہ اللہ تعالٰی کو راضی کر لو صرف اسی نیت سے جانا چاہتا ہوں کہ میں اور اللہ تعالٰی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ،اپنی گھر والوں کی خاطر اپنی آخرت کو خراب نہیں کرنا چاہتا جواب لازمی دیجئے گا۔ والسلام
 بیوی اور بچوں کا حق واجب ہے ،اور جہاد  فرض کفایہ ہے ،جس کے لیے ان کی اجازت اور خاطر خواہ بندوبست کے بغیر چلے جانے کی صورت میں بچوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، جو بذات خود گناہ کی بات ہے، اس لیے سائل کو چاہیے کہ نماز، روزہ،
اور مسجد کے تعلق کے ساتھ دنیوی معاش کے لیے بھی محنت کرے،کسی اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے، اور اقامتی طور پر تبلیغ میں وقتاً فوقتاً جڑنے کا اہتمام کرے، انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔ 
 كما في حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله وبالغ له أبوان) مفاده أنهما (إلی قوله) وأما غير هؤلاء كالزوجة والأولاد والأخوات والأعمام فإنه يخرج بلا إذنهم إلا إذا كانت نفقتهم واجبة عليه وخاف عليهم الضيعة اهـ ملخصا (4/ 125) واللہ اعلم بالصواب