 
                    (۱) کیا ’’درِّ مختار‘‘ اور ’’ردّ المحتار‘‘ سے بڑھ کر علماءِ دیوبند کے عقائد اور اعمال ہیں، کیونکہ مسائل ایسے ہیں جو کہ ان مستند فقہ کی کتب میں ہیں اورعلماء دیوبند اس کو نظر انداز کرکے اپنے مسائل خود لے آتے ہیں، جیسا کہ ’’حیّ علی الفلاح‘‘ پہ کھڑا ہونا ہے کیونکہ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’شرح بخاری‘‘ میں بھی اس سے متعلق بالکل واضح ہے۔
 (۲) ایک اورمسئلہ یہ ہے کہ کیا ایسا عقیدہ رکھنا صحیح ہے کہ حضور ﷺ اللہ تعالیٰ عزوّجل کی عطا سے مومن کا درود اور سلام پڑھنا براہِ راست سنتے ہیں؟
 (۱) الحمدللہ علماء دیوبند حنفی المسلک ہیں اور فقہ حنفی کے مفتی بہ اقوال پر عمل کرتے ہیں اور متعلقہ مسئلہ میں بھی مسلکِ حنفی پر عمل پیرا ہیں، ذیل میں درِّ مختار اور ردّ المحتار کلی عبارت نقل کی جارہی ہے اس کو بغور پڑھنے سے سائل کا اشکال دور ہوسکتا ہے، جبکہ روایت و درایت میں خیانت سے کام نہ لیا جائے تو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے (جو اصل مقتدیٰ ہیں) علماء دیوبند ہی کی تائید ہوتی ہے۔
 (۲) احادیثِ مبارکہ سے قبر کے پاس پڑھے جانے والے درود کا سننا اور دور سے ’’ملائکہ سیاحین‘‘ کا درود شریف حضور تک پہنچانا ثابت ہے، جبکہ دور سے ڈائریکٹ سننے کے متعلق عطاءِ الٰہی کی کوئی روایت نہیں ملتی، اس لیے بلا تحقیق اس قسم کی باتیں کرنے سے احتراز چاہیے۔ 
 في الدر المختار للعلامة الحصکفي: (والقیام)لإمام ومؤتم (حین قیل حي علی الفلاح)خلافا لزفر، فعندہ: حي علی الصلاۃ (ٳن کان الٳمام بقرب المحراب، وٳلا فیقوم کل صف ینتھي ٳلیہ الإمام علی الأظھر)وٳن دخل من قدام قاموا حین یقع بصرھم علیه اھ (۱/۴۷۹)۔
وفي سنن ٲبی داؤد: عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا تقوموا حتى تروني» اھ 
وفي بذل المجھود: بأن بلالًا كان يراقب خروج النبي - صلى الله عليه وسلم -، فأول ما يراه يشرع في الإقامة قبل أن يراه غالب الناس، ثم إذا رأوه قاموا فلا يقوم في مكانه حتى تعتدل صفوفهم.
قلت: ويشهد له ما رواه عبد الرزاق عن ابن جريج عن ابن شهاب "أن الناس كانوا ساعة يقول المؤذن: الله أكبر يقومون إلى الصلاة، فلا يأتي النبي - صلى الله عليه وسلم - مقامه حتى تعتدل الصفوف"  اھ (۱/۳۰۸)۔
وفي ٳعلاء السنن: وقال العلامۃ الطحطاوي: والظاھر ٲنہ احتراز عن التأخیر لا التقدم، حتی لو قام أول الإقامة لا بأس اھ (۴/۳۲۸)۔
ففي مشکاة المصابیح: عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام» . رواه النسائي والدارمي اھ (ص:۸۶)۔
وفي مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح: ("يبلغوني"): من التبليغ، وقيل: من الإبلاغ، وروي بتخفيف النون على حذف إحدى النونين، وقيل: بتشديدها على الإدغام، أي: يوصلون (" من أمتي السلام "): إذا سلموا علي قليلا أو كثيرا، وهذا مخصوص بمن بعد عن حضرة مرقده المنور ومضجعه المطهر (ٳلی قوله)وٳیماء ٳلی قبول السلام حیث قبلته الملائكة وحملته ٳلیه ۔ علیه السلام ۔ اھ (۳/۱۲)۔ واللہ اعلم  بالصواب!