کیا فرماتے علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بھابھی کے والد کے انتقال پر میری بھابھی اور اس کی بہنوں نے زار و قطار رونا شروع کردیا، اور روتے روتے بدحال ہو گئیں ، اور بدحالی کے عالم میں اُنہوں نے توبہ و استغفر اللہ خدا تعالیٰ کو بُرا بھلا کہا ، اُن کے والد کی زندگی میں ہم اُن کو نماز اور قرآن مجید کی تلاوت کی تلقین کرتے تھے، والد صاحب کی وفات کے بعد اُنہوں نے ہم سے کہا کہ’’ کہاں گیا تمھارا خدا جس کے بارے میں تم کہتے تھے کہ نماز پڑھو ، نفلیں پڑھو ، قرآن مجید کی تلاوت کرو ، اللہ تعالیٰ تمھاری سنے گا ، کیوں تمھارے خدا نے ہماری نہیں سنی ، کیوں ہمارے باپ کو ہم سے جدا کیا ، اب ہم نہیں مانتے تمھارے خدا کی، نہیں کریں گے اس کی عبادت‘‘جناب علماء کرام ! اس عالم میں اُنہوں نے ایک قرآن مجید کو بھی شہید کردیا ، لیکن جب دوسرے دن وہ اپنے حواس میں آئیں تو اُن کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ پھر سے اس خدا کے سامنے سجدہ میں گر گئیں اور اس پاک ذات کی عبادت کرنے لگیں ، اب اس مسئلہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ جو کفریہ باتیں اُنہوں نے بدحواسی کے عالَم میں کیں ، اب انہیں کیا کرنا چاہیے؟ تفصیلی جواب لکھ کر ہماری راہنمائی فرمائیں۔
سوال میں مذکور خواتین ان کلمات کی ادائیگی کے وقت اگر واقعۃً بیہوش اور ایسی بدحال ہو گئی تھیں کہ اپنی ذات سے صادر ہونے والے اقوال و افعال کا قطعاً علم نہیں تھا ، بلکہ ہوش آنے کے بعد یاد دلانے پر انہیں اپنی ان ناجائز حرکات کا علم ہوا اور اس پر سخت ندامت بھی ہوئی تو ایسی صورت میں اُن کے مذکور کلمات کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ، وہ شرعاً معاف ہیں، تاہم انہیں چاہیے کہ پھر بھی اپنے ان ناجائز کلمات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور بصدقِ دل توبہ و استغقار کریں اور احتیاطاً تجدیدِ ایمان و نکاح بھی کرلیں۔
فی الفتاویٰ الشامیة : فلا تصح ردة مجنون و معتوہ و موسوس و صبی لایعقل و سکران و مکرہ علیھا اھ(4/224)۔
و فیھا ایضاً : و ما فیه خلاف یؤمر بالاسغفار و التوبة و تجدید النکاح اھ(4/247)۔
و فی الھندیة : إذا کان فی المسئلة وجوہ توجب الکفر و وجه یمنع فعلی المفتی أن یمیل إلی ذالک الوجه اھ(2/283)۔