مفتی صاحب! ہرعلاقے، ہر قبیلے اور خاندان میں خوشی اور غمی کا طریقہ الگ ہے جسے عرف عام میں رسم ورواج کہا جاتاہے، اگر یہ رسم ورواج علمائے کرام کی رہنمائی میں سنت کے مطابق ادا کیے جائیں تو سوال یہ ہے کہ: کیا بذاتِ خود لفظ رسم ورواج کفر اور شرک ہے؟ ہمارے ایک دوست کا کہناہے کہ رسم ورواج تو ہے ہی کفر اور شرک کا نام، حضرت صاحب! سوال کسی عمل کے بارے میں نہیں ہے، سوال صرف لفظ رسم ورواج کا ہے اگر مفتیان کرام سے مسئلہ پوچھ کر عمل میں سے خرافات وغیرہ نکال دی جائیں تو صرف لفظ رسم ورواج کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
واضح ہوکہ محض رسم ورواج کا لفظ استعمال کرنے میں کسی قسم کی برائی اور کفر، شرک نہیں، بلکہ مخصوص طریقہ پر رسم و رواج کا اطلاق بلاشبہ جائز و درست ہے، اس لیے سائل کے مذکور دوست کی بات درست نہیں، البتہ وہ رسم جو دین میں نہ ہو اور دین کا لازمی حصہ سمجھ کر کیا جائےیا وہ رسومات احکامِ شرعیہ کے ساتھ متصادم ہوں تو ایسے رسومات سے بہر حال احتراز لازم ہے۔
في مشکاة المصابیح: قال رسول اللہ ۔ صلی اللہ علیه وسلم ۔ من ٲحدث في ٲمرنا هذا مالیس منه فهو رد اھـ (۱/۲۷)۔
وفي الدر المختار للعلامة الحصکفي: (ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول اھـ
وفي حاشية ابن عابدین: تحت (وھي اعتقاد)(ٳلی قوله) ولا يخفى أن الاعتقاد يشمل ما كان معه عمل أو لا (ٳلی قوله) لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ(۱/۵۶۱) واللہ أعلم بالصواب!