کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کہتاہے تورات، زبور، انجیل اللہ کا کلام نہیں ہیں اور بطور دلیل اس بات کو پیش کرتاہے کہ اگر یہ کتابیں کلام الٰہی ہوتیں تو اس میں ردو وبدل کیوں ہوتا، کیا یہ بات درست ہے؟ اگر زید کا یہ قول درست نہیں تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
اگرچہ سوال میں مذکور بات کہہ دینے سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، تاہم اس طرح کی جہالت اور لاعلمی پر مبنی باتیں کہنے سے احتراز لازم ہے، جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اسی طرح دیگر آسمانی کتابیں توراۃ، زبوراور انجیل بھی کلامِ نفسی ہونے کے اعتبار سے اللہ کا کلام ہے، لیکن ان کی حفاظت کا ذمہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود نہیں لیا تھا، اس لیے بعد میں لوگوں نے اس میں رد و بدل کرکے اس کو اصل حالت پر باقی نہیں رکھا، جبکہ قرآنِ مجید کی حفاظت کا ذمہ خود باری تعالیٰ نے لیا ہے، اس لیے قرآنِ مجید تحریفِ لفظی اور معنوی دونوں سے قیامت تک کیلیے محفوظ ہے۔
في شرح العقائد النسفية: (وللہ کتب ٲنزلها علی انبیائه، وبین فیھا ٲمرہ ونخی، وعدہ ووعیدہ)وکلہا کلام اللہ تعالی وهو واحد، وٳنما التعدد والتفاوت في النظم المقر المسموع، وبہذا الاعتبار کان الٲفضل هو القرآن، ثم التورية، والإنجیل، والزبور اھـ (۱۴۳)۔
وفي شرح الفقه الأکبر: یجب ٲن یقول: آمنت باللہ، وملائکته، وکتبه، ورسله اھـ (ص:۱۲)۔
وفیه ٲیضا: تحت(قوله: وکتبه) ٲي المنزلة من عندہ کالتوراة والإنجیل، والزبور والفرقان، وغیرها من غیر تعیین في عددها اھـ (ص:۱۲9) واللہ أعلم بالصواب!