بخدمت جناب مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! جناب اعلی: بعد سلام عرض ہے کہ ، میں نے 08/01/2024 کو غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو تین طلاق ایک ہی وقت میں دی ہے، جبکہ وہ حاملہ ہے، میری ایک بیٹی ہے جسکی عمر تقریباً 4 سال ہے، مجھے آپ سے شرعی رہنمائی چاہیئے کہ میری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے؟ اس دن کے بعد سے میں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے ، ان کے گھر والے کہہ رہے کہ ہم نے پتا کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، تو آپ مجھے علم دین کی روشنی میں فتوی عنایت فرمادیں، میں آپ کا شکر گزار ہونگا۔شکریہ!
نوٹ: الفاظِ طلاق یہ تھے "میں نے تمہیں طلاق دی ، طلاق دی طلاق دی"
واضح ہو کہ حالتِ حمل میں بھی طلاق دینے سے شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے، چنانچہ سائل نے جب اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں صریح الفاظ میں دیدیں تو اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، اب رجوع نہیں ہو سکتا اور حلالۂ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہوسکتا لہذا دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں اور میاں بیوی والے تعلقات ہر گز قائم نہ کریں، ورنہ دونوں سخت گناہ گار ہوں گے جبکہ عورت ایامِ عدت (وضع حمل)کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہے ۔
قال اللہ تعالی: فَإنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ الآیۃ (آیتـ 230 سورۃ البقرۃ)
کما فی الدر المختار: (و یقع بھا) أی بھذہ الألفاظ وما بمعناھا من الصریح الخ
و فی رد المحتار: تحت (قولہ وما بمعناھا من الصریح) أی مثل ما سیذکرہ من نحو: کونی طالقا واطلقی ویامطلقۃ بالتشدید الخ (کتاب الطلاق باب الصریح ج3 صـ 248 ط: سعید)
و فی الدر المختار: (فروع (کرر لفظ الطلاق وقع الکل، وإن نوی التأکید دین الخ (کتاب الطلاق ج3 صـ 293 ط: سعید)
وفیہ ایضاً: (و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها) الخ (کتاب الطلاق ج 3 صـ 511 ط: سعید)
و فی الھدایۃ: وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرۃ أو ثنتین فی الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا (إلی قولہ) ویزاد علی النص بالحدیث المشھور و ھو قولہ علیہ السلام لا تحل للأول حتی تذوق عُسیلۃ الآخر الخ (کتاب الطلاق فصل فیما تحل بہ المطلقۃ ج 2 صـ 409 ط: قدیمی)