اسلام و علیکم مجھے پوچھنا ہے کیا ھمارے نبی کے دور میں ایس ایم ایس پر طلاق دی جاتی. کیا طلاق کا معاملہ مذاق نہیں بن گیا ہے کتنے ہی گھر اب اس وجہ سے خراب ھو رھے ہے جس کا دل کر رہا ہے کہیں بہی بیٹھا ہے سوشل میڈیا کے زرے طلاق دے رہا ہے جب کے سورہ طلاق میں ھے کے طلاق کے لیے دو گواہوں کی موجودگی میں طلاق دی جائے.
واضح ہو کہ وقوع طلاق کے لیے شرعا گواہوں کا ہونا ضروری نہیں بلکہ گواہوں کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمبارکہ اور بعد میں حضرات صحابہ کرام کے دورمیں طلاق کے متعدد واقعات میں گواہوں کے بغیر طلاق کو معتبرماناگیاہے،جہاں تک قرآن کریم میں سورۃ طلاق کے اندر طلاق کے موقع پر گواہوں کا تذکرہ ہے، تو یہ حکم محض استحباب کے درجہ میں ہے اس سے لزوم ثابت نہیں ہوتی۔
اس لیے تحریری طلاق خواہ کسی میسج کے ذریعہ ہو یا کسی کاغذکے ذریعہ ہو، اس سے بہرصورت طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
وفی تفسیر القرطبی: (18 / 157)
"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، و لئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". ( سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب)
وفی الفتاویٰ الہندیۃ: ثم إن کتب علی وجہ المرسوم ولم یعلقہ بالشرط بأن کتب أما بعد ! یا فلانۃ فأنت طالق ، وقع الطلاق عقیب کتابۃ لفظ ’’ الطلاق ‘‘ بلا فصل ۔ (کتاب الطلاق / الفصل السادس في الطلاق بالکتابۃ ۱ ؍ ۳۷۸ )