اگرشوھرغصےکی حالت میں اچانک کہےکہ میں تمہیں چھوڑتا ہوں/چھوڑدیتاہوں، جائو جہاں جانا چاہو چلی جائو۔ کیا اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔(نوٹ کیجئے کہ طلاق کی کوئی بات نہیں ہورہی تھی اچانک کسی بات پہ غصے میں کہا گیا ہو تو) اسکے بعد شوہر اعتراف کرے کہ اسکا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا اور مزید کہے کہ وہ طلاق کا کہنے لگا تھا لیکن اس نے خود کو روک لیا۔ براہ مہربانی جلد از جلد رہنمائی فرمائیں۔
واضح ہو کہ ”چھوڑتاہوں/ چھوڑدیا“ کا لفظ در اصل الفاظ کنایہ میں سے تھا مگر عرف عام میں طلاق کے معنی میں استعمال ہونے لگا، اس لیے اب یہ طلاق صریح کےحکم میں ہے، اور اس سے بغیر نیت بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا اگر شوہر نے تین سے کم مرتبہ یہ لفظ استعمال کیا ہو، تو دوران عدت رجوع کرسکتاہے، ورنہ تین یا اس زائد مرتبہ یہ لفظ بولنے کی صورت میں حرمت مغلظہ ثابت ہوجائے گی، جس کے بعد اسے رجوع کا اختیار نہ ہوگا، اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقدنکاح بھی نہیں ہوسکے گا، جبکہ عورت ایام عدت کے بعد کسی دوسرے جگہ عقدنکاح کرنے میں بھی آزاد ہوگی۔
فی الشامیۃ:(ج۲/ ۵۰۳)
وإذا قال رہا کردم أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الفرس استعمالہ في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت اھ․ ( کوئٹہ)