اگر میرا شوہر غصہ میں کہے "فارغ ہو تم، جاؤ اپنی امی کے ہاں" اور مجھے نہیں معلوم کہ اس نے کس نیت سے کہاتھا ؟ کیا طلاق ہوگئی؟
واضح ہو کہ "فارغ" کا لفظ عندالقرینہ طلاقِ صریح بائن کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اس لیے مذاکرہ یا مطالبۂ طلاق کے وقت ، ان الفاظ کے بولنے سے ، بلانیت بھی طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے ، جس کے بعد شوہر کے پاس رجوع کا حق نہیں ہوتا ، البتہ اگر میاں بیوی ساتھ رہنا چاہیں ، تو عدت میں یا عدت کے بعد باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کرکے ، ایجاب و قبول کرنا ضروری ہوتاہے، اور آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوتا ہے ، بشرطیکہ اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی ہو۔
اس لیے سائلہ کو چاہیے کہ اپنے شوہر سے واقعی صورتِ حال معلوم کرکے اسی کے مطابق عمل کریں۔
کما فی الفتاوی الھندیۃ : الفصل الخامس في الكنايات لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة ثم الكنايات ثلاثة أقسام ما يصلح جوابا لا غير ،أمرك بيدك اختاري اعتدي و ما يصلح جوابا و ردا لا غير اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري و ما يصلح جوابا و شتما خلية برية بتة بتلة بائن حرام( ج: ۱، ص: ۳۷۴، ۳۷۵)۔
و فی المبسوط للسرخسی :"(قال): و لو قال : أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق ؛ لأنه تكلم بكلام محتمل".(6 / 72،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ط: دار المعرفة - بيروت)
و فی الدرالمختار"الكنايات ( لاتطلق بها )قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) و هي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب."( ، ۲۹۶/۳)۔