کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر شوہر نے بیوی کو ایک کاغذ پر تین مرتبہ طلاق لکھ کر دے دی تو طلاقیں واقع ہوں گی یا نہیں؟ اگر واقع ہوں گی تو کتنی؟ مزید یہ کہ مذکورہ صورت میں لڑکا اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور لڑکی اہل سنت والجماعت سے تو پھر کیا حکم ہے؟
واضح ہو کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاقیں، خواہ ایک جملہ سے دی ہوں یا الگ جملوں سے دی ہوں تین طلاقیں ہی شمار ہوتی ہیں، حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام کا بھی اس پر اتفاق ہےنیز ائمہ اربعہ کا بھی یہی مسلک ہے، اس لئے صورتِ مسئولہ میں مذکورشخص کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوکر حرمت ِمغلظہ ثابت ہوچکی ہے اب رجوع نہیں ہوسکتا اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہوسکتا چنانچہ مذکور لڑکی کو چاہیے کہ اس سے فوراً علیحدگی اختیار کرے اور اپنے آپ کو حرام کاری کیلیے پیش نہ کرے۔
قال اللہ تعالیٰ: ﴿فإن طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ﴾ (البقرۃ:۲۳۰)
و في الدر المختار للعلامة الحصكفى: کتب الطلاق ان مستبینا علی نحو لوح وقع إن نوی وقیل مطلقًا ۔اھ
وفي الفتاوی الشامیة: تحت(قولہ کتب الطلاق الخ) (إلى قوله) وإن کانت مرسومۃ یقع الطلاق نوی اولم ینو۔ الخ (ج۳، ص۲۴۶) واللہ أعلم بالصواب