کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ والدین نے اپنے بیٹوں کا نکاح بچپن میں اور ایک دوسرے کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دے دیں، اور باقاعدہ نکاح ہوا یعنی اولاد کی طرف سے والدین نے ایجاب و قبول کیا، اگرچہ مہر وغیرہ کی تعین نہیں ہوئی لیکن نکاح ہوگیا ہے اور نیز یہ بات یاد رہے کہ ہمارے پٹھانوں میں منگنی ہی میں باقاعدہ ایجاب و قبول گواہوں کے سامنے ہوتا ہے اور رخصتی کے وقت پھر دوبارہ نکاح پڑھاتے ہیں۔
اب ان دونوں لڑکوں میں سے ایک مکمل مجنون ہے اور لڑکی جوان ہے، اب اس سے چھٹکارے اور طلاق کی کیا صورت ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً ان نابالغ بچوں کے والدین نے ایجاب و قبول کرکے یہ نکاح منعقد کرلیا تھا تو یہ شرعاً بھی درست منعقد ہوچکا ہے اب اگر کسی لڑکے پر جنون طاری ہوگیا ہو اور خطرناک حدتک پہنچ گیا ہو تو اس صورت میں عورت کوچاہئے کہ کسی مسلمان حاکم جج کی عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کرے پھر عدالت مکمل تحقیق کے بعد اس لڑکے اور اس کے اولیاء کو ایک سال تک کیلئے علاج کا موقع اور مہلت دے اب اگر علاج کے ذریعہ بھی وہ اس عرصہ کے دوران صحت مند نہ ہوسکے تو سال بعد عورت کی طرف سے دوبارہ درخواست پر مسلمان جج ان کے درمیان تفریق کا فیصلہ سنادے یہ فیصلہ طلاق بائن کے حکم میں ہوگا اور اس فیصلہ کے بعد عدت گزار کر عورت اپنی مرضی سے جہاں چاہے دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔
وفی الھندیۃ: اذا کان باالزوج جنون او برص او جذام فلا خیار لہا کذا فی الکافی قال محمدؒ انکان الجنون حادثًا یؤجلہ سنۃً کالعنۃ ثم یخیر المرأۃ بعد الحول اذا لم یبرأ وانکان مطبقا فہو کا الجب وبہ ناخذ کذا فی الحاوی القدسی۔ (ج۱، ص۵۲۶) واللہ اعلم بالصواب