کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بیٹے محمد بابر نے تقریبا پانچ سال قبل اپنی بیوی حرا اطہر کو تین طلاقیں دیدی تھی،جس کے بعد لڑکی والے اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے،پھر کچھ عرصہ بعد میرے بیٹے نے اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ تعلق جوڑ لیا(بغیر کسی صورت حلت کے)،جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان کو اپنے گھر آنے سے سختی سے منع کردیا،اور وہ باہر کرایہ پر رہنے لگ گئے،لیکن اب کچھ دنوں سے وہ دونوں میاں بیوی ساز وسامان کے ساتھ میرے گھر آ گئے ہیں،ہرچند اصرار کے باوجود نہیں جارہے،گزشتہ تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ حضرات سے چند سوالات کے جوابات درکارہیں۔
(1)تین طلاق واقع ہونے کے باوجود ان کا آپس میں ایک ساتھ رہنا شریعت کی رو سے کیساہے؟
(2)گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے کیا میں ان کو گھر سے نکالنے کا حق رکھتا ہوں؟
(3)جب تک یہ دونوں اس فعل قبیح میں مبتلا ہوں تب تک میرا انکے ساتھ کیسا معاملہ ہونا چاہیئے؟
حضرات مفتیان کرام !میں انتہائی مجبورہوچکا ہوں ،میرے گھر میں ناجائز کام ہورہا ہے،آپ حضرات کی طرف سے جواب کا لمحہ بلمحہ منتظر ہوں ،تاکہ شریعت کی رو سے ان سے معاملہ کرسکوں۔
صورت مسؤلہ میں سائل کے بیٹے نے اگر واقعۃ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہوں، تو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے ، اب رجوع نہیں ہو سکتا اور حلالہ شرعیہ کے بغیر باہم عقد نکاح بھی نہیں ہوسکتا، لہذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں اور میاں بیوی والے تعلقات ہرگز قائم نہ کریں، ورنہ دونوں سخت گنہگار ہوں گے، اور اب تک بغیر حلالہ شرعیہ کے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے جو گناہ سرزد ہو چکا ہے، اس پر بصدق دل توبہ و استغفار بھی کریں اور آئندہ کے لئے دوبارہ اس قسم کے ناجائز اور حرام کاموں کے ارتکاب سے مکمل اجتناب بھی کریں، جبکہ سائل کو چاہیئے کہ دیگر باثرافراد کے ذریعہ مذکور بیٹے کو سمجھاکر ا سے اپنے اس ناجائز اور حرام طرز عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرے، تاہم اگر مذکور بیٹا سمجھانے کے باوجود اپنے اس فعل شنیع سے باز نہ آئے اور بغیر حلالہ شرعیہ کے ایک ساتھ رہیں تو ایسی صورت میں سائل ان کو اپنے گھر سے نکال کر بغرض اصلاح عارضی طور پر قطع تعلقی بھی اختیار کرسکتاہے اور اس صورت میں وہ گناہ گار بھی نہ ہوگا
کما فی قولہ تعالیٰ: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تنكح زوجا غيره اھ (البقرۃ: الآیۃ230)۔
و فی مرقاۃ المفاتیح: - عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.» الخ
وفی حاشیتہ: قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق، فإنه صلى الله عليه وسلم لما خاف على كعب بن مالك وأصحابه النفاق حين تخلفوا عن غزوة تبوك أمر بهجرانهم خمسين يوما الخ ( کتاب الآداب رقم الحدیث: 5027 ج 9 ص 230 ط: رشیدیہ)۔
و في تكملة فتح الملهم : ثم ان الهجران الممنوع انما هو ما كان بسبب دنيوى اما اذا كان بسبب فسق المرء و عصيانه فاكثر العلماء على جوازه (الی قولہ) و حاصل ذلك ان الهجران انما يحرم اذا كان جهة غضب نفسانى اما اذا كان على وجه التغليظ على المعصية و الفسق (الى قوله) فانه ليس من الهجران الممنوع اھ (باب تحریم الھجرفوق ثلاث، بلا غذر شرعی، ج5، ص 355-356، ط:دار العلوم)۔
و فی عمدۃ القاری: أي: هذا باب في بيان ما يجوز من الهجران لمن عصى، وقال المهلب: غرض البخاري من هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأن ذلك متنوع على قدر الإجرام، فمن كان جرمه كثيرا فينبغي هجرانه واجتنابه وترك مكالمته، كما جاء في كعب بن مالك وصاحبيه، وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان فالهجران الجائز فيها ترك التحية والتسمية وبسط الوجه الخ ( کتاب الآداب، باب في بيان ما يجوز من الهجران لمن عصى ج 22 ص 225 ط: دارالکتب )۔