کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں:
مؤرخہ تین دسمبر کو ہمارے گھر لڑائی ہوئی، اور جھگڑ ابڑھ گیا، تو مجھ سے برادشت نہیں ہوا ،اور غصہ کی حالت میں میں نے اپنی بیوی کو لاتیں ماریں اور کہا کہ "میری بات نہیں مان رہی تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ طلاق ، طلاق ، طلاق ، طلاق ، طلاق “ اس کے بعد وہ میرے ماموں کے گھر چلی گئی، وہاں ایک رات گزارنے کے بعد اس کے گھر والے آ کر اُسے لے گئے۔
اب اس تفصیل کی روشنی میں آپ ہمیں حکم شرعی سے آگاہ کریں کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں، اور اگر واقع ہوئی، تو کتنی طلاقیں ہوئی ،اور اب اس مسئلہ کے حل کی کیا صورت ہے ؟ میں اور میری بیوی دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں، برائے مہربانی ہمارے مسئلہ کا حل بتادیں۔
واضح ہو کہ غصے کی حالت میں طلاق دینے سے بھی شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے ، لہذا سائل نے جھگڑے کے دوران خط کشیدہ الفاظ چھ مرتبہ بولے ہیں، تو اس سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلّظہ ثابت ہو چکی ہے ،جبکہ بقیہ الفاظ طلاق محل نہ ہونے کی وجہ سے لغو ہو گئے ہیں، اب رجوع نہیں ہو سکتا، اور حلالۂ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہو سکتا ، جبکہ عورت ایامِ عدت کے بعد اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کرنے میں بھی آزاد ہے۔
اور حلالۂ شرعیہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے علیحدگی اور عدتِ طلاق گزرنے کے بعد بغیر کسی شرط کے کسی دوسرے مسلمان شخص سے نکاح کرے، اور حقوقِ زوجیت ادا کرے، اب گر دوسرا شخص بھی اس سے ایک مرتبہ بھی ہمبستری (جو کہ حلالۂ شرعیہ کے تحقق کے لئے ضروری ہے) کے فورا ًبعد یا ازدواجی زندگی کے کچھ عرصہ بعد طلاق دیدے ،یا بیوی سے پہلے شوہر کا انتقال ہو جائے، بہر صورت اس کی عدت گزرنے کے بعد اگر وہ پہلے شوہر کے نکاح میں آنا چاہے، اور پہلا شوہر بھی اس کو رکھنے پر رضا مند ہو تو نئے مہر کے تقرر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ عقدِ نکاح کر کے باہم میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکتے ہیں ، تاہم حلالہ اس شرط کے ساتھ کرنا کہ زوجِ ثانی نکاح کے بعد طلاق دے، تاکہ زوجِ اول کے لئے عورت دوبارہ حلال ہو جائے، مکروہِ تحریمی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے عمل کرنے والوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے ، البتہ بغیر شرط کے بلاشبہ جائز اور درست ہے۔
قال الله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } [البقرة: 230]۔
و في سنن ابن ماجه؛ عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النكاح، والطلاق، والرجعة " (1/ 658)۔
و في صحيح مسلم: عن عروة، عن عائشة، قالت: جاءت امرأة رفاعة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: كنت عند رفاعة، فطلقني، فبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، وإن ما معه مثل هدبة الثوب، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك» اھ (۔2/ 1055)۔
و في الفتاوى الهندية: وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا وإن كانت غير مدخولة طلقت واحدة وكذا إذا قال أنت طالق فطالق فطالق أو ثم طالق ثم طالق أو طالق طالق كذا في السراج الوهاج اھ (1/ 355)۔
وفيه ايضا : ولو قال لها أنت طالق طالق أو أنت طالق أنت طالق أو قال قد طلقتك قد طلقتك أو قال أنت طالق وقد طلقتك تقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولا بها اھ (1/ 355)۔