کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بہنوئی گاؤں جانا چاہتے تھے،جس پر میری بہن نے کہا کہ آپ گاؤں نہ جائیں ،کیونکہ جب آپ نہیں ہوتے تو بچے لڑتے ہیں،شوہر نے غصے میں کہا کہ ٹھیک ہے اگر میں گاؤں نہیں جاؤنگا تو تم بھی اپنی والدین کے گھر نہیں جائیگی”اگر تم امی کے گھر گئی تو مجھ پر طلاق ہوگی“یہ جملہ تین بار کہا،جبکہ میرے والدین پہلے اپنے گھر میں رہتے تھے ،پھر گھر کی دیوار وغیرہ گرنے کی وجہ سے بھائی کے گھر منتقل ہوگئے ہیں،اس صورت میں میری بہن میرے بھائی کے گھر جاکر والدین سے مل سکتی ہے یا نہیں؟
مزید وضاحت: یہ ہے کہ میری بہنوئی نے اپنی بیوی کو یہ کہا تھا کہ” اگر تم شاہ من (میری والدہ) کے گھر گئی تو تم مجھ پر طلاق“(کہ چری تہ شاہ من کرہ لاڑی نو تہ بہ پہ ما طلاقہ یے)یہ جملہ تین مرتبہ بولا،پہلے والدہ میرے والد کے گھر میں رہائش پذیر تھی،اب والد کا جو گھر تھا،وہ ویران پڑا ہے اور والدہ میرے بھائیوں کے ساتھ الگ رہائش پذیر ہے ،کبھی ایک بھائی کے پا س اور کبھی دوسرے بھائی کے پاس رہتی ہے،اور اس جملہ کے بعد سے وہ والدہ سے ملنے نہیں آئی ،البتہ والدہ ان کے گھر ملاقات کے لیے گئی ہے،اب جو بھی شرعی حکم ہو تحریرفرمائیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے بہنوئی نے اگرواقعۃً مذکور الفاظ”اگر تم شاہ من کے گھر گئی تو تم مجھ پر طلاق“تین بار کہے ہوں، تو اس سے سائلہ کی بہن پروالدہ کے گھر (جہاں مستقل طور پر اس کی ذاتی رہائش کی ترتیب ہو)جانے پر تین طلاقیں معلق ہوچکی ہیں،لہذا جب بھی شرط پائی جائیگی تو سائلہ کی بہن پر معلق تینوں طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوجائیگی،اس کے بعدمیاں بیوی کا بغیر حلالۂ شرعیہ کےایک ساتھ رہنا جائز نہ ہوگا،تاہم سائلہ کی بہن اب تک اگر اپنی ماں کے گھر نہ گئی ہو بلکہ والدہ ملاقات کے لئے اس کے پاس آئی ہوتو اس سے سائلہ کی بہن پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،نیز اب جبکہ والدین کا گھر خراب اور ویران ہوگیا ہو،اور والدہ اپنے بیٹوں کے ہاں ان کے گھروں میں رہائش پذیر ہو تو سائلہ کی بہن بھائیوں کے ہاں والدہ سے ملنے جاسکتی ہے،اور اس سے سائلہ کی بہن پر معلق طلاقیں بھی واقع نہ ہونگی ،البتہ اگر کسی وقت والدہ اپنے سابقہ گھر لوٹ جائےیا کسی دوسری جگہ مستقل رہائش اور سکونت اختیار کرے تو وہاں سائلہ کی بہن کا والدہ سے ملنے پر معلق طلاقیں واقع ہوجائینگی ،لہذا وہاں جانے سے بہن کو احتراز کرنا ہوگا ۔
تاہم اگر سائلہ کی بہن اپنی ماں کے گھر بھی جانا چاہتی ہے اور طلاق کا وقوع بھی نہیں چاہتی تو اس کے لئے یہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہےکہ سائلہ کا بہنوئی اپنی بیوی کو ایک طلاقِ بائن دیکر اپنے سے الگ کردےاور عدت ختم ہونے تک ماں کے گھر ہر گز نہ جائے ،پھر جب بیوی کی عدت ختم ہوجائےتو ماں کے گھر چلی جائے،اس وقت چونکہ اس کی بیوی اس کے نکاح میں نہیں ہوگی،اس لئے اب اس کے اپنی ماں کے گھر جانے کی وجہ سے اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور اس کی قسم بھی پوری ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد گواہوں کی موجودگی میں نئے حقِ مہر کے تقرر کے ساتھ دوبارہ باہم عقدِ نکاح کرلیں،اس کے بعد سائل کی بیوی پر اپنی ماں کےگھر آنے جانے سے مزید طلاق واقع نہ ہوگی،تاہم یہ ملحوظ رہے کہ شخصِ مذکور یعنی سائلہ کے بہنوئی کو آئندہ کے لئے صرف دو طلاقیں دینے کا اختیار رہے گا،اس لئے آئندہ کے لئے طلاق کے معاملے میں احتیاط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کمافی الدر المختار: (وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا، فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها الخ(ج3 ص355 کتاب الطلاق،باب التعلیق ط: سعید)۔
وفی رد المحتار تحت (قوله ولو تبعا) حتى لو حلف لا يدخل دار أمه أو بنته وهي تسكن مع زوجها حنث بالدخول نهر عن الخانية.
قلت: وهو خلاف ما سيذكره آخر الأيمان عن الواقعات لكن ذكر في التتارخانية أن فيه اختلاف الرواية ويظهر لي أرجحية ما هنا حيث كان المعتبر نسبة السكنى عرفا ولا يخفى أن بيت المرأة في العرف ما تسكنه تبعا لزوجها وانظر ما سنذكره آخر الأيمان الخ(ج3 ص760 کتاب الأیمان ط: سعید)۔