کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں" سہیل "نے اپنی بیوی صبا کنول کو طلاق دے دی ہے اور میرے تین بچے ہیں ، واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ میں سو رہا تھا تو میری بیوی نے مجھے اٹھایا اور پانی بھرنے کا سختی سے کہا ، میں نیند میں تھا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے غصہ میں اسے تین مرتبہ طلاق دے دی ہے ، اب میری بیوی میرے گھر سے چلی گئی ہے اور بچے اس بار ے میں پریشان ہوگئے ہیں اور میں بھی ندامت کر رہا ہوں ، اب میں اس گناہ کا کفارہ اٹھانے کو تیار ہوں اور اپنے بچوں کی کفالت اور بیوی کے ساتھ دوبارہ رہنا چاہتا ہوں ، براہِ مہربانی مجھے شرعی طور پر فتویٰ چاہیے کہ میں کیا کروں؟ شکریہ۔
نوٹ: سائل نے طلاق دیتے ہوئے یہ الفاظ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"کہے ۔
صورتِ مسؤلہ میں سائل نے جب اپنی بیوی مسماۃ صبا کو مذکور الفاظ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"تین دفعہ کہہ دیے تو اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے ، اب رجوع نہیں ہوسکتا اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ، لہذا دونوں پر لازم ہے کہ میاں بیوی والے تعلقات ہرگز قائم نہ کریں ، ورنہ دونوں سخت گناہ گار ہونگے ، جبکہ عورت ایامِ عدت گزارنے کے بعد اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہے ۔
اور حلالہ شرعیہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے علیحدگی اور عدتِ طلاق گزارنے کے بعد بغیر کسی شرط کے کسی دوسر ے مسلمان شخص سے اپنا عقد ِ نکاح کرے ، چنانچہ اگر وہ دوسرا شخص بھی اس سےایک مرتبہ ہمبستری (جوکہ حلالہ شرعیہ کےتحقق لئے ضروری ہے )کے فورا ً بعد یا ازدواجی زندگی کے کچھ عرصہ بعد طلاق دیدے یا بیوی سے پہلے شوہر کا انتقال ہوجائے ، بہر صورت اسکی عدت گزرنے کے بعد وہ پہلے شوہر کے عقدِ نکاح میں آنا چاہے اور پہلا شوہر بھی اسے رکھنے پر رضامند ہو تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ عقدِ نکاح کرکے باہم میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی بسر کرسکتے ہیں ، تاہم حلالہ اس شرط کے ساتھ کرنا کہ زوج ثانی نکاح کے بعد طلاق دے تاکہ زوج اول کیلئے عورت دوبارہ حلال ہوجائے مکروہ تحریمی ہے اور احادیث مبارکہ میں ایسا عمل کرنے والوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے ، البتہ بغیر شرط کے بلاشبہ جائز اور درست ہے ۔
قال اللہ تعالیٰ: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَاتَحِلَّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
(البقرۃ:230)۔
و فی الدر المختار: کرر لفظ الطلاق وقع الکل، و ان نوی التاکید دین
و فی رد المحتار: قولہ و ان نوی التاکید دین: ای وقع الکل قضاء اھ(3/293)۔
و فی الھندیۃ: و ان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ و ثنتین فی الامۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا و یدخل بھا ثم یطلقھا او یموت عنھا اھ (1/473)۔