ایک صاحب کی عمر( 62) سال ہے ،عرصہ چار سال سے بیوی سے تعلق نہیں ہے ، بول چال بھی بند ہے ، اور ازدواجی تعلق بھی نہیں ، پچھلے پانچ مہینے سے گھر میں بھی نہیں رہتے ، مسجد میں رہتے ہیں ، گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے ، طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اور کافی دفعہ اظہار کر چکےہیں ، ایسی صورت میں نکاح باقی رہے گا ؟
واضح ہو کہ محض طلاق کا ارادہ کرنے سے شرعاً کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ، جب تک کہ باقاعدہ الفاظِ طلاق کی ادائیگی نہ کی گئی ہو ، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکور شخص کا صرف طلاق دینے کا ارادہ تھا ، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، جبکہ اس شخص کا اپنی بیوی سے عرصہ 4 سال سے بغیر کسی عذر کے لا تعلقی اور کنارہ کشی اختیار کرنا شرعاً جائز نہیں ، جس سے اجتناب لازم ہے.
کما فی صحیح مسلم : عن ابی هريرة رضي الله عنه ،قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الله عز وجل تجاوز لامتی عما حدثت بہ انفسھا مالم تعمل او تکلم بہ (۷۸/۱) ۔
و فی رد المحتار : (قوله و لا يبلغ مدة الإيلاء)و يؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فواللہ لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد ، فسأل بنته حفصة : كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر ، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها ، و لو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها.اھ (3/203) ۔
و فیھا ایضاً : (قوله و ركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، و أراد اللفظ و لو حكما ليدخل الكتابة المستبينة و إشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحا و لا كناية لا يقع عليه اھ (3/230) ۔