کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ان مسائل کے بارے میں کہ :
(۱) کیا نمازِ جنازہ میں صف باندھنا اور اُسے طاق رکھنا لازم ہے؟ سنا ہے کہ سات صفوں تک طاق کا ہونا لازم ہے اس کے بعد نہیں، کیا اس بات کی کوئی حقیقت ہے؟
(۲) فرض نماز کے بعد کتنی لمبی دعاء کرسکتا ہے؟ یعنی سنتوں سے پہلے اور نماز فرض پڑھنے کے بعد۔
(۳) جمعہ کے خطبہ کے وقت کس حالت میں بیٹھنا چاہئے؟ بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ اوّل خطبہ کے وقت ہاتھوں کو ناف پر باندھتے ہیں اور دوسرے خطبہ کے وقت ہاتھوں کو رانوں پر رکھتے ہیں کیا ایسا کرنا سنت ہے؟ بینوا توجروا
(۱) جنازہ کی صفوں کا طاق یا سات ہی بنانا شرعاً کوئی لازم اور ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر شریک ہونے والے بہت ہی کم تعداد میں ہوں اور ایک ہی صف میں آسکتے ہوں تو ایک صف میں نماز پڑھنے سے بھی نماز جائز اور درست ہوجائے گی، البتہ اس صورت میں تین صفوں کا بنانا بہتر اور مستحب ہے، جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی صراحت بھی ہے، لہٰذا اس سے بخوبی معلوم ہوگیا کہ طاق بنانا لازم اور ضروری نہیں بلکہ ایک بہتر اور افضل امر ہے جسے اختیار کرنا چاہئے۔
(۲) جن فرضوں کے بعد سنن بھی ہیں ان کی ادائیگی کے بعد مختصر دعا مثل (اللّٰہم انت السلام الخ) کے بعد سنتوں کی ادائیگی کا حکم ہے۔
لہٰذا لمبی دعا کرنے سے احتراز کرنا چاہئے، البتہ نماز کی تکمیل کے بعد یا اگر کوئی منفرداً نماز پڑھ رہا ہو اور فرض کے بعد ہی دُعا میں جی لگتا ہو تو اس صورت میں اپنے طور پر لمبی دعا کرنے میں بھی کچھ حرج نہیں ہے۔
(۳) ایسے بیٹھنا عاجزی اور ادب پر دلالت کرتا ہے جو جائز اور مستحن ہے البتہ اگر کوئی شخص ایسے نہ بیٹھ سکتا ہو یا تھکنے کی وجہ سے کسی ایک کروٹ کے بل یا چار زانو ہوکر بیٹھ جائے تو یہ بھی جائز اور درست ہے اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ خطبہ سننے کیلئے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت شرعاً متعین نہیں بلکہ توجہ اور دھیان سے سننا ضروری ہے جو بہر صورت حاصل ہوسکتا ہے۔
وفی رد المحتار: ولہذا قال فی المحیط ویستحب ان یصف ثلاثۃ صفوف حتی لو کانوا سبعۃ یتقدم احدہم للامامۃ ویقف وراءہ ثلاث ثم اثنان ثم واحد (وذکر قبل ذٰلک حدیثًا) من صلی علیہ ثلاثۃ صفوف غفرلہ۔ رواہ ابو داؤد) (ج۱، ص۶۴۵ مطبوعہ رشیدیہ)۔
وفی الدر المختار: ویکرہ تاخیر السنۃ الا بقدر اللّٰہم انت السلام۔ الخ
وفی رد المحتار عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت کان رسول اﷲ ﷺ لا یقعد الا بمقدار اللّٰہم انت السلام ومنک السلام تبارکت ربنا وتعالیت یا ذالجلال والاکرام۔ واما ما ورد من الاحادیث فی الاذکار عقیب الصلوٰۃ فلا دلالۃ فیہ علی الاتیان بہا قبل السنۃ بل یحمل علی الاتیان بہا بعدہا۔ (ج۱، ص۳۹۱ مطبوعہ رشیدیہ)۔
وفی الھندیۃ: اذا شہد الرجل عند الخطبۃ ان شاء جلس محتبیا او متربعا او کما تیسر لہ لانہ لیس بصلوٰۃٍ عملًا وحقیقۃً کذا فی المضمرات ویستحب ان یقعد فیہا کما یقعد فی الصلوٰۃ کذا فی معراج النہایہ۔ (ج۱، ص۱۴۸)۔