کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جنازہ تیار ہے ، صفیں کھڑی ہیں ، امام صاحب یا اور کوئی آدمی جہراً لوگوں کو مخاطب کر کے نیت بلند آواز سے بطورِ تعلیم کرتا ہے، لوگ اس نیت کو سن کر اپنی اپنی نیت کر لیتے ہیں، آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و سنت اور فقہ حنفی سے جواب عنایت فرمائیں۔
اگرچہ نیت کی تعلیم دینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، بوقتِ ضرورت مذکور طریقہ اپنایا جا سکتا ہے، مگر اسے جنازہ کا حصہ سمجھنا اور نہ بتانے پر معترض ہونا درست نہیں، اس لیے کبھی کبھار اسے ترک بھی کر دیا جائے، تاکہ اسے جنازہ کا رُکن نہ سمجھا جائے۔
وفی الدر المختار: (النية) بالإجماع (وهي الإرادة) (إلی قوله) (والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل (أي صلاة يصلي) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز.(والتلفظ) عند الإرادة (بها مستحب) هو المختار اھ(1/ 415) واللہ أعلم بالصواب!