السلام علیکم ورحمۃ الله وبركاتہ محترم مفتی صاحب!
معلوم یہ کرنا ہے کہ سنت کیا ہے؟ کیا ہر وہ عمل جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اپنی حیاتِ طیّبہ میں وہ سب سنت ہے؟ برائے مہربانی قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
عربی زبان میں سنت کا معنی "طریقہ" کے آتے ہیں، اس معنی میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہر کام کرتے وقت جو طریقہ اپنایا ہے، اس کو سنت کہا جا سکتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی ہر ہر ادا کی اتباع کرنا اور اسے اختیار کرنا سعادت مندی کا ذریعہ ہے ،اور مطلوب بھی ہے، لیکن آپ علیہ السلام کے افعال کریمہ کا حکم کے اعتبار سے درجہ بندی کی بات ہو تو اس صورت میں سنت کی تعریف یہ ہوگی کہ ہر وہ کام جو آپ علیہ السلام نے بطورِ عبادت کیا ہو، اور کبھی بلا عذر چھوڑا ببھی ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ ایسے امور پر عمل کرنا باعثِ ثواب اور نہ کرنا ثواب سے محرومی ہے، جو ایک مسلمان کے لئے بڑی بات ہے، البتہ نہ کرنے کی صورت میں گناہ لازم نہیں آئیگا، پھر اگر کوئی کام آپ علیہ السلام نے بطورِ عبادت ہمیشگی کے ساتھ کیا ہو اور کسی عذر کی وجہ سے نہ کرنے کی نوبت آئی ہو،ا گر وہ عذر نہ ہوتا تو نہ چھوڑتے، لیکن اس کی قضاء منقول نہ ہو تو ایسے فعل کو سنتِ مؤکدہ کہا جاتا ہے اور اس کے ترک کی عادت بنا لینا موجبِ مواخذہ ہوگا، اس کے علاوہ وہ کام جو آپ علیہ السلام نے بطورِ عادت کیے جیسے کھانا، پینا، کپڑے وغیرہ یہ امور رخصت و مستحب اور مندوب کہلاتے ہیں اور پہلے والے معنی کے اعتبار سے سنت بھی کہدیے جاتے ہیں ان امور کو اختیار کرنا اور عمل کرنا موجبِ اجر و ثواب ہے ،اس لئے ایک مسلمان کو بحیثیت امتی ہونے کے ان کو اختیار کرنا امتی ہونے اور عاشقِ رسول ہونے کا ثبوت ہے، جیسے سفید رنگ کا کپڑا پہننا مستحب ہے اور آپ علیہ السلام کو پسند بھی ہے، لیکن دوسرے رنگ کا کپڑا پہننا بشرطیکہ کسی اور وجہ سے ممنوع نہ ہو، بھی جائز ہے، لیکن یہ یادر ہے کہ کسی بھی کام کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا کہ یہ سنت ہی تو ہے بہت بڑی جسارت ہے، کیونکہ اس میں توہین کا شائبہ پایا جاتا ہے لہذا اس طرح کے رویّہ سے احتراز لازم ہے ۔
ففي حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله: وسننه إلخ) اعلم أن المشروعات أربعة أقسام، فرض وواجب وسنة ونفل، فما كان فعله أولى من تركه مع منع الترك إن ثبت بدليل قطعي ففرض، أو بظني فواجب، وبلا منع الترك إن كان مما واظب عليه الرسول - صلى الله عليه وسلم - أو الخلفاء الراشدون من بعده فسنة، وإلا فمندوب ونفل. (1/ 102)۔
و في المنار مع شرحه نور الأنوار: والصحيح عندنا ان ما علمنا من افعاله صلى الله عليه وسلم واقعا على جهة ) من الوجوب أو الندب أو الإباحة (نقتدى به فى ايقاعه على تلك الجهة) حتى يقوم دليل الخصوص فما كان واجبا عليه يكون واجبا علينا وما كان مندوبا عليه يكون مندوبا علينا وما كان مباحا له يكون مباحا لنا وما لم تعلم على اية جهة فعله قلنا فعله على ادنى منازل افعاله وهو الاباحة) (نور الانوار ص: ۲۱۷) مكتبه امدادية)۔