کیا فرماتے مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کوئی سنت عمل کرے ، جیسا کہ مسواک کرنا یا مشورے وغیرہ ہم کرتے ہیں یا اسی طرح اور سنت جو ہمارے روزانہ کے معمولات ہیں تو کئی بار سننے میں آیا ہے کہ جو شخص ایک سنت کو زندہ کرے تو اس شخص کو سو (۱۰۰) شہیدوں کا اجر ملتا ہے اور شہید بھی وہ جو خاص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کفار کے مقابلے میں اپنے خون میں لت پت ہو کر شہید ہوئے ہوں۔
تو عرض یہ ہے کہ جب روزانہ ایک سنت پر اتنا اونچا اجر ملتا ہے ، جو کہ مجاہد جا کر ، مشقت برداشت کرکے اگر نصیب میں ہو تو تب شہادت پاتا ہے، جبکہ یہاں روزانہ ایک سنت پر سو (۱۰۰) شہیدوں کا ثواب ملتا ہے ، تو دل میں وسوسہ آ تا ہے کہ جب اتنا زیادہ اجر یہاں ملتا ہے تو پھر شہادت پانے کے لیے اتنی مشقتوں کی کیا ضرورت ہے ؟ تو اس اشکال کو مکمل تفصیل سے حل فرما دیں تا کہ ہمارے دل میں جو شُبہ ہے وہ دور ہو جائے۔
اس سے مراد وہ سنت عمل ہے ، جو لوگوں کے رواج سے ختم ہو چکا ہو اور اس کے مقابلہ میں جہالت عام ہو گئی ہو ، اب اگر کوئی شخص اس سنت عمل کو اختیار کرتا ہے تو بے دین اور جاہلوں کی طعن و تشنیع اور الزام تراشی وغیرہ کا مورد بنتا ہے،یہاں تک کہ وہ لوگوں کی باتیں سن سن کر بے چین ہو جاتا ہے ، مگر وہ سب کچھ برداشت کرتا ہے اور سنتِ رسول کو بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ،تو ایسے شخص کو اس سنت زندہ کرنے پر سو شہیدوں کا ثواب ملے گا، مگر حقیقی شہادت کا درجہ اور مقام بہت ہی بڑھ کر ہے ، جس کے حصول کی خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی تمنا اور آرزو ظاہر فرمائی ہے۔
و فی مرقاة المصابیح : و عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله من تمسك أي عمل بسنتي عند فساد أمتي أي عند غلبة البدعة و الجهل و الفسق فيهم فله أجر مائة شهيد لما يلحقه من المشقة بالعمل بها و بإحيائها و تركهم لها كالشهيد المقاتل مع الكفار لإحياء الدين بل أكثر اھ( 1/423،422)۔