السلام علیکم !
میں ایک ٹھکیدار ہوں، گورنمنٹ کی طرف سے جو ٹھیکے آتے ہیں، اس میں یہ ہوتا ہےکہ مثلاً ایک ٹھیکہ اوپر سے منظور ہوا ، وہ ہمیں ملا یعنی ہمیں کام کرنے کیلئے وہ ٹھیکہ میں ملتا ہے، اس میں پرابلم یہ ہے کہ مثلا ٹھیکہ روڈ کا ہے، تو ٹھیکہ میں تو طے ہوا تھا کہ روڈ میں بھرائی پانچ انچ ہوگی، اگر ہم پانچ انچ ہی بھرائی کرتے ہیں، تو ہمیں یا تو کچھ نہیں بچے گا یا نقصان ہو گا، کیونکہ درمیان میں یعنی ٹھیکہ منظور ہونے سے لیکر ہمیں ملنے تک جو دو سال کا گیپ یا اس میں ہر چیز کی قیمتیں عموماً بڑھ جاتی ہیں، انہوں نے کام میں خرچے کا حساب لگایا ہوتا ہے، دو سال پہلے والا اب اس کی جگہ خرچہ بہت بڑھ جاتا ہے، تو کیا میں پانچ انچ کی جگہ تین یا ساڑھے تین انچ تک بھرائی کروں، تو کیا اس کی شریعت میں گنجائش ہے ؟ اگر ایسا نہ کریں تو کوئی ٹھیکیدارکام میں نہیں کرے گا، یا اس کی کوئی اور صورت ہو تو رہنمائی فرمائیے گا ، اگر اوپر افسران کو کہتے ہیں، تو وہ سنتے ہی نہیں، تو ہم اس طرح کرسکتے ہیں ؟ یا اعلی معیار کی چیز طے ہوئی تھی، درمیانی مقدار کی چیز لگادی، کیا اس کی گنجائش ہے؟
ٹھیکداروں کو گورنمنٹ کی طرف سے جو کام دیا جاتا ہے ( مثلاً روڈ کی تعمیر میں پانچ انچ کی بھرائی کرنا یا اس میں اعلی میٹریل استعمال کرنا) اس کام میں کو تاہی کرنا یا اعلی میٹریل کے بجائے ناقص یا متوسط درجے کے میٹریل استعمال کرنا گور نمنٹ اور قوم کے ساتھ خیانت اور دھوکہ دہی پر مبنی عمل ہے ، البتہ اگر تاخیر سے کام شروع کرنے کی وجہ سے اس کی لاگت میں اضافہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں گورنمنٹ سے اس کے لئے مزید فنڈ کی منظوری لی جا سکتی ہے ، ورنہ ایسے ٹھیکوں سے ہی اجتناب کیا جائے۔
كما في سنن الترمذي:عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام،فأدخل يده فيها،فنالت أصابعه بللا، فقال:«يا صاحب الطعام، ما هذا؟»، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس»، ثم قال: «من غش فليس منا» (إلی قوله) والعمل على هذا عند أهل العلم كرهوا الغش، وقالوا: الغش حرام (3/ 598) ۔
وفي الدر المختار: وهل تنعقد بالتعاطي؟ ظاهر الخلاصة نعم إن علمت المدة. (6/ 5) -