میں یہ سمجھتاہوں کہ پرانے زمانے میں لباس ٹخنے سے نیچے رکھنے کا مقصد غرور، تکبر، امارت ظاہر کرنا ہوتا تھا، جبکہ آج کل کے زمانے میں ایسا کچھ نہیں ہے اور ایسا کرنے سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف ہوتی ہے، نہ کسی دوسرے کا نقصان، اور ویسے عمل کا دارو مدار نیت پر ہے، اس روشنی میں آج کل کے حالات میں لباس ٹخنے سے نیچے رکھنے کے بارے میں آگاہ فرمادیں۔
ازار اور شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا تکبر کی علامت ہے دل کا حال تو اللہ جانتاہے اس لیے احادیث مبارکہ میں اس ظاہری علامت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے تاہم اگر دل میں تکبر کی نیت نہ ہو اور بے خیالی میں شلوار ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو اس کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
کما فی صحیح مسلم: عن ابن عمر قال قال رسول اللہﷺ من جر ثوبہ من الخیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامۃ. (۲/ ۱۹۵)
وفی مرقاہ المفاتیح: قال ابن الملک ویفھم منہ ان جرّہ لغیر ذٰلک لا یکون حرامًا لکنہ مکروہ کراہۃ تنزیہ (۸/ ۱۲۸)
وفی تکملۃ فتح الملہم: والحاصل ان العلّۃ الأصلیۃ من وراء تحریم الاسبال ھی الخیلاء۔۔۔ ولکن تحقق الخیلاء امر مخفی ربما لا یطلع علیہ من ابتلی بہ فأقیم سببہ مقام العلۃ وھو الاسبال (الی قولہ) وعلی ہذا کلما تحقق الاسبال تحت الکعبین جاء المنع الا فی غیر حالۃ الاختیار فان انتفاء الخیلاء فی ذلک متیقن لأن الخیلاء لا تتحقق بفعل لا قصد للعبدہ فیہ ومن ہذہ الجہۃ اجاز رسول اللہﷺ الاسبال لأبی بکر، وقال لہ (لیست ممن یصنعہ خیلاء) وبہذا تنطبق الروایات۔ (واللہ اعلم بالصواب)