(۱)مختلف اخبارات والے قرآنی آیات کا ترجمہ اخبار میں شائع کر دیتے ہیں، کئی لوگ اخبار پڑھنے کے بعد اس کو صفائی کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، اور بعد میں یہ کچرے میں ڈال دیتے ہیں، اس مسئلہ کا حل کیا ہے، اور کون ذمہ دار ہے اس کا ، اور کیا یہ گناہ نہیں؟
(۲) کئی لوگوں کے نام کے ساتھ لفظِ محمد استعمال ہوتا ہے، جو کہ ہمارے لیے قابل احترام ہے، جیسے محمد وقار، اس طرح کے نام اخبارات میں اور دیگر کاغذات پر ہوتے ہیں اور یہ بھی آخر کچرے تک پہنچ جاتے ہیں، اس کا گناہ کس پر ہوگا؟
جن اخبارات میں قرآنی آیات کے ترجمے ، یا اسمائے محترمہ ہوں، ان اوراق کو صفائی وغیرہ میں استعمال کرنا، یا کچرے میں پھینکنا گناہ اور بے ادبی ہے، اس لیے جس کے پاس ایسے اخبارات ہوں اس کو چاہیے کہ اخبارات پڑھ کر وہ حصہ جو قرآنی آیات یا اس کے ترجمے یا احادیث مبارکہ پر مشتمل ہو، اس کو کاٹ کر مقدس اوراق کے ڈبہ میں ڈالنے کا اہتمام کریں یا کسی ایسی جگہ دفنائیں جہاں لوگوں کے پاؤں نہ پڑتے ہوں۔
ففی الدر المختار: الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء. (6/ 422)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله: لاحترامه) أي بسبب ما كتب به من أسماء الله تعالى ونحوها، على أن الحروف في ذاتها لها احترام. (1/ 178)
وفی الفتاوى الهندية: ولو كتب القرآن على الحيطان والجدران بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، وبعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوى قاضي خان. (5/ 323)
وفی حاشية ابن عابدين: ولو كان فيه اسم الله تعالى أو اسم النبي - عليه الصلاة والسلام - يجوز محوه ليلف فيه شيء ومحو بعض الكتابة بالريق، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبصاق، ولم يبين محو كتابة القرآن بالريق هل هو كاسم الله تعالى أو كغيره ط. (6/ 387) واللہ أعلم بالصواب!