میرا بیٹا دوبئی گیا تھا، وہاں میرے بیٹے کو کچھ پیسوں کی ضرورت تھی، تو میں نے اپنے ایک دوست سے (جو وہاں کام کرتے ہیں) کہا کہ میرے بیٹے کو کچھ پیسے دے دو، جب اس کا کوئی کام لگ جائے گا تو وہ آپ کوپیسے لوٹا دے گا، یا پھر پاکستان آکر آپ کے پیسے ہم لوٹا دیں گے، میرے دوست نے میرے بیٹے کو ہزا ر (1000) درہم بطور قرض دیے جو اُس وقت پاکستانی سنتالیس ہزار (47000) روپے تھے، اور اب ادائیگی کے وقت بہتر ہزار (72000) یا بیاسی ہزار (82000) روپے بن رہے ہیں، میرے دوست کا مطالبہ ہے کہ آپ مجھے میرے وہی ہزار درہم لوٹا دیں یا پھر موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے جو پاکستانی روپےبنتے ہیں، وہ ادا کریں، لیکن میرے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ میں یہ رقم ادا کر سکوں، آپ رہنمائی فرمائیں کہ شریعت اس بارے میں کیا حکم دیتی ہے۔ جزاکم اللہ خیراً
واضح ہو کہ قرض جس کرنسی میں لیا جائے تو مقروض شخص کے ذمہ اسی کرنسی میں قرض کی واپسی لازم ہوتی ہے، البتہ اگر قرض خواہ کسی اور کرنسی میں قرض کی واپسی پر رضامند ہو تو قرض کی واپسی کے وقت کرنسی کی جو قیمت ہوگی اسی حساب سے مقروض شخص پر قرض کی واپسی لازم ہوگی، لہذا سائل کے دوست نے سائل کے کہنے پر سائل کے بیٹے کو چونکہ ہزار درہم بطور قرض دیے تھے، اس لئے اب سائل کے ذمہ اپنے دوست کو ہزار درہم یا باہمی رضامندی سے موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق پاکستانی روپے کی ادائیگی لازم ہوگی، تاہم اگر سائل کےمالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے فی الوقت اسکے لئے قرض کی واپسی مشکل ہو تو سائل کے دوست کو چاہیئے کہ قرض کی واپسی کیلئے کچھ وقت دے دے، تاکہ مقروض شخص بسہولت قرض ادا کرسکے، چنانچہ ایسا کرنے سے قرض خواہ کو اجر و ثواب بھی ملے گا۔
کما فی رد المحتار: وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه۔اھ (5/ 162)
وفی فقه البيوع: ويجوز فيها النسية إن وقعت المبادلة بغير جنسها مثل ان تباع الدولارات الامريكية بالربيات الباكستانية بشرط ان تكون المبادلة بسعر يوم المبادلة حتى لا تكون ذريعة للربا۔اھ (2/733)
وفيه ايضاً: ولما كانت عملات الدول أجناساً مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع (الى قوله) وأما عند أبي حنيفة و أصحابه فلأنّ تحريم بيع الفلس بالفلسين مبني عندهم على كون الفلوس أمثالاً متساوية قطعاً فيبقى عند التفاضل فضل خال عن العوض ولكن عملات البلاد المختلفة لما كانت أجناساً مختلفة لم تكن أمثالاً متساوية فلا يتصور الفضل الخالي عن العوض۔اھ (2/ 737)
وفی تنقيح الحامدية: (سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها ؟ (الجواب) : نعم ولا ينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمدا من مجمع الفتاوى۔اھ (1/ 279)
قرض کی مدت پوری ہونے پر, قرضخواہ کا مقروض کے کاروبار میں, خود کو شریک سمجھ کر نفع کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ قرض 0