السلام علیکم جناب مفتی صاحب!
میرا سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب میرا نکاح اپنے بھائی یعنی میرے چچا کی بیٹی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، مگر اس لڑکی میں اس کے علاوہ کوئی خوبی نہیں کہ وہ بس میرے چچا کی بیٹی ہے، نہ تو وہ دین کا علم اور شعور رکھتی ہے اور نہ ہی عصری تعلیم یافتہ ہے، چغلی کھانا اور جھوٹ بولنے کی بھی اُسے عادت ہےاور کھانا وغیرہ پکانے کا بھی ذوق نہیں رکھتی اور اس کے علاوہ میں نے ایک بار استخارہ بھی کیا تھا، جس کے بعد سے میرا دل مزید اس لڑکی سے بے پر واہ ہو گیا ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ میں اس صورتحال میں کیا کروں؟ کیا میں اپنے والد صاحب کے ارادے کے خلاف کر سکتا ہوں ؟ کیونکہ ان کا یہ انتخاب دینداری کی بنياد پر نہیں بلکہ رشتہ داری اور خاندانی بنیاد پر ہے، براہِ مہربانی جلد جواب ارسال فرمائیں۔ شکریہ
سائل اگر مذکور رشتے پر دلی طور پر راضی نہ ہو تو باادب طریقے سے والد صاحب کو بتادے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں، اس میں سائل پر کوئی گناہ لازم نہیں آئیگا، جبکہ سائل کے والد پر بھی لازم ہےکہ وہ اپنے بیٹے کو اس کی مرضی کے خلاف مجبور نہ کرے۔
كما فی الترغيب والترهيب: وعن إسماعيل بن محمد بن سعد بن أبي وقاص عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من سعادة ابن آدم ثلاثة، ومن شقوة ابن آدم ثلاثة: من سعادة ابن آدم المرأة الصالحة، والمسكن الصالح، والمركب الصالح، ومن شقوة ابن آدم المرأة السوء، والمسكن السوء، والمركب السوء". اھ(3/41)
وفی صحيح مسلم: عن علی: "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم (الى قوله) لا طاعة فی معصية الله، إنما الطاعة فی المعروف". (2/125)
وفی عمدة القاری: ولا يجب على الولد طاعتهما فی كل ما يأمران به، ولا فی كل ما ينهيان عنه، باتفاق العلماء، اھ (22/82)
وفی الدر المختار: (وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما. (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفین سامعين قولهما معا) على الأصح اھ (3/ 21)