 
                    السلام عليكم ورحمۃ الله ، مفتی صاحب ! میرا سوال یہ ہے کہ سود لینا تو حرام ہے، قرآن ، حدیث اور سارے کتب فتاویٰ میں واضح ہے ، لیکن سود دینا کیسا ہے حرام یا حلال ؟ کہا جاتا ہے مولانا طارق جمیل صاحب نے سود دینے کے بارے میں کہا ہے کہ سود دینے سے کاروبار حرام نہیں ہوتا، سود لینےسے حرام ہوجاتا ہے ۔ جواب دیدے، شکریہ
واضح ہوکہ شریعت مطہرہ میں جس طرح سود لینے حرام قرار دیا گیا ہے، اسی طرح سود دینے کوبھی حرام اور ناجائز قرار دیا گیا ہےاور قرآن و احادیثِ مبارکہ میں دونوں پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، جبکہ مولانا طارق جمیل صا حب نے اس متعلق کیا فرمایا ہے اسکی وضاحت وہ خود ہی دے سکتے ہیں، تاہم اگر کسی نے لا علمی اور غفلت کے عالم میں کسی سے سودی قرض لیکر اصل رقم کو حلال اور جائز کاروبار میں لگاکر نفع حاصل کر لیا ہو تو اصل سرمایہ کے حلال ہونے کی وجہ سے اس سے حاصل شدہ نفع بھی حلال ہوگا، لیکن سودی معاملہ کرنے اور سود دینے کا گناہ اپنی جگہ بر قرار رہیگا ، اس لئے جان بوجھ کر سودی لین دین کا کسی بھی طرح براہ راست حصہ بننا شرعاً جائز نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے۔
 کماقال اللہ تعالی: ٱلَّذِينَ يَأۡكُلُونَ ٱلرِّبَوٰاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِي يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيۡطَٰنُ مِنَ ٱلۡمَسِّۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ قَالُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡبَيۡعُ مِثۡلُ ٱلرِّبَوٰاْۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ (سورۃ البقرہ،الایۃ: 275)۔
وفی الصحیح للمسلم: عَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ (رقم الحدیث،1598، ج5، ص 50، ط: دار الطباعۃ)۔
وفی الاشباہ النظائر لابن نجیم رح: القاعدة الرابعة عشرة: ما حرم أخذه حرم إعطاؤه كالربا ومهر البغي وحلوان الكاهن والرشوة وأجرة النائحة والزامر الخ ( ص132، ط: دار  الکتب العلمیۃ)۔
وفی الہندیۃ: غصب حانوتا واتجر فيه وربح يطيب الربح كذا في الوجيز للكردري اھ (كتاب الغصب، الباب الثامن، ج5، ص 142، ط: ماجدیۃ)۔ 
سونا قرض دے کر بعد میں کچھ کی ادائیگی کے لئے سونے اور بقیہ کی ادائیگی کے لئے نقد رقم کی شرط لگانا
یونیکوڈ سود 1