السلام علیکم!
بعد از سلام عرض یہ ہے کہ میں آن لائن کاروبار ( TikTok Shop) سے وابستہ ہوں اس میں ہم نے آن لائن ایک شاپ کھولی ہے جس کے اُوپر فی الحال ایک بزنس ماڈل پر کام کررہے ہیں جس کو ڈراپ شپنگ کہتے ہیں اس میں ہم اپنی شاپ کے اُوپر پروڈکٹس کی فوٹوز اپلوڈ کرتے ہیں لیکن وہ چیز ہمارے پاس نہیں ہوتی جب کسی پروڈکٹ کے اُوپر آرڈر آجاتا ہے تو ہم اُس آرڈر کنندہ کیلئے کہیں اور سے آرڈر کرواکر اُن کے ایڈریس پر بھیج دیتے ہیں کسٹمر پیسے ڈاریکٹلی ہمیں ادا نہیں کرتا , کسٹمر پیسے TikTokکو ادا کرتا ہے وہ پیسے ٹک ٹاک کے پاس بطورِ امانت ہوتے ہیں اور ہم کسٹمرز کیلئے دوسری جگہ سے جب چیز خرید کر بھجواتے ہیں وہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے ہیں جب کسٹمرز کو وہ چیز پہنچ جاتی ہے اور وہ مطمئن ہوتا ہے تب TikTok ہمیں پیسے پندرہ دن بعد ادا کردیتا ہے۔ ان پندرہ دنوں کے اندر اندر واپسی اور ریفنڈ کا بھی اختیار ہوتا ہے , اس روزگار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جزاک اللہ!
واضح ہوکہ خریدوفروخت کے شرعاً جائز ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ فروخت کرنے والا جس چیز کو فروخت کررہا ہےوہ اس کی ملکیت اورحسی یا معنوی قبضے میں ہو،اور اگر وہ کسی ایسی چیز کو فروخت کرتا ہےجو اس کی ملکیت میں نہیں ہےتو یہ بیع درست نہیں ،بلکہ باطل اور کالعدم شمارہوگی۔
لہذا مسئولہ صورتِ میں ٹک ٹاک شاپ کے ذریعہ ہونے والےمذکورعقد میں بھی اگر پروڈکٹ کو حسی یا معنوی طور پر قبضے میں لائے بغیر آگےفروخت کرناہوتو ایسا کرناشرعاً درست نہیں ،جس سے احتراز لازم ہے۔
البتہ اس کے جواز کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
(الف) ایک یہ کہ سائل معاملہ کی ابتداء میں گاہگ کو یہ نہ کہے کہ یہ چیز آپ کو فروخت کررہا ہوں،بلکہ یہ کہے کہ یہ چیز فروخت کرنےکا وعدہ کررہا ہوں،اس طرح یہ بیع نہیں بلکہ وعدۂ بیع کہلائےگا،اور ایسی صورت میں رقم لینا "ہامش جدیہ" (پیشگی ادائیگی) کے طور پر درست ہوگا،پھر سائل مطلوبہ پروڈکٹ خرید کر خود یا وکیل کے ذریعہ حسی یا معنوی قبضہ کے ساتھ اس طور پر لے کہ وہ سائل کے ضمان (رسک) میں آجائے،پھر وہ خریدار کو فروخت کرکےاسے ارسال کردے۔
(ب) دوسری متبادل صورت وکالت/دلال کی ہےکہ سائل گاہگ سے آرڈر لے اور مطلوبہ چیز خرید کر گاہگ تک پہنچائے یا وہ دکان دار خود پہنچادے اور سائل اپنی محنت کی طے شدہ اجرت لےلے،ایسی صورت میں اصل بائع دکان دار ہوگا اورسائل کی حیثیت ایک وکیل کی ہوگی،جو شریعت میں ایک قابلِ عوض محنت ہےجس پر مقررہ متعین اجرت وصول کرنا شرعاً جائز و درست ہے۔
کما فی فقہ البیوع للعثمانی (2/1137)
الوعد والمواعدۃ بالبیع لیس بیعاً،ولا یترتب علیہ آثار البیع من نقل ملکیۃ المبیع ولا وجوب الثمن،واذا وقع الوعد او المواعدۃ علیٰ شراء شیئ او بیعہ بصیغۃ جازمۃ وجب علیٰ الواعد دیانۃ ان یفی بہ،ویعقد البیع حسب وعدہ ولکنہ لا یجبر علیٰ ذلک قضاءً.
وفی الهداية في شرح بداية المبتدي (3/44)
قال: "ولا يجوز بيع السمك قبل أن يصطاد" لأنه باع مالا يملكه "ولا في حظيرة إذا كان لا يؤخذ إلا بصيد"؛ لأنه غير مقدور التسليم، ومعناه إذا أخذه ثم ألقاه فيها لو كان يؤخذ من غير حيلة جاز، إلا إذا اجتمعت فيها بأنفسها ولم يسد عليها المدخل لعدم الملك.
قال: "ولا بيع الطير في الهواء" لأنه غير مملوك قبل الأخذ، وكذا لو أرسله من يده لأنه غير مقدور التسليم.
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/560)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.