(+92) 0317 1118263

وقف

عیدگاہ کی جگہ پر مدرسہ بنانے کا حکم

فتوی نمبر :
68166
| تاریخ :
2023-10-01

عیدگاہ کی جگہ پر مدرسہ بنانے کا حکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ!
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ پنجاب کے علاقے تحصیل میلسی کے مضافات میں ایک گاؤں بستی رحیم کلی ہے ، اس بستی کے ایک زمیندار محمد اعظم خان صاحب مرحوم نے گاؤں کے لئے چند مرلے زمین نمازِ عیدین کے لئے وقف کی، یہ جگہ پورے سال خالی پڑی رہتی تھی،جسکی وجہ سے ناپاک قسم کے جانور پھرتے رہتے تھے، گاؤں والوں نے اس جگہ کو آباد کرنے کے لئے قرآن مجید کی تعلیم کے لئے حفظ وناظرہ کی کلاسیں شروع کردیں، جو کہ تقریباً عرصہ بیس سال سے جاری تھیں، کیا عیدین کے لئے مختص جگہ پر قرآن مجید کی تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں ؟ مسئلے کی وضاحت کرکے راہنمائی فرما دیں ۔شکریہ!

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مذکور گاؤں اگر" قصبہ اورقریۂ کبیرۃ"کے حکم میں داخل ہو ، اور وہاں جمعہ و عیدین کی ادائیگی ہوتی ہوں ، جسکی وجہ سے مرحوم محمد اعظم خان نے عید گاہ کیلئے زمین وقف کی ہو ،اور زمین وقف کرتے وقت اس نے تبدیلی کی کوئی شرط بھی نہ لگائی ہو ، تو ایسی صورت میں یہ وقف درست اور تام ہونے کے بعد جب تک مذکور زمین کی عید گاہ کیلئے استعمال کرنے کی ضرورت ہو ،اسے بطورِ عیدگاہ ہی استعمال کرنا لازم اور ضروری ہوگا، مذکور زمین کو مستقل طور پر مدرسے میں تبدیل کر کے"جہتِ وقف"میں تبدیلی کرنا شرعاً درست نہیں، البتہ اگر عید گاہ کی حفاظت وغیرہ کی غرض سے وہاں قرآن مجید کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے ، تو اس میں مضائقہ نہیں۔

مأخَذُ الفَتوی

کما فی المصنف لابن أبي شيبة:(عن علي قال: لا جمعة ولا تشريق ولا صلاة فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع)أو مدينة عظيمة۔(4/85)
و فی مشكاة المصابيح:عن أبي سعيد الخدري قال: كان النبي-صلى الله عليه وسلم- يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى۔الحدیث(450/1)
و فی الدر المختار:(فإذا تم ولزم لايملك ولا يعار ولا يرهن)(الی قوله) (ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا)عند الثاني(وشرط محمد)والامام (الصلاة فيه)اھ(356/4)
و فی رد المحتار: مطلب في استبدال الوقف وشروطه (قوله:وجاز شرط الاستبدال به الخ ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه والثالث أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار(إلي قوله)لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال اھ(384/4)
و فی رد المحتار:ويجنب هذا المكان عما يجنب عنه المساجد احتياطا. اهـ.(356/4)
و فی الفقه الإسلامي: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيسا على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه.(7617/10)
و فی الأشباه والنظائر:شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في وجوب العمل به اھ (163)
و فی الدرالمختار:(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة(سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها،(وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة اھ(167/2)
و فی رد المحتار:(قوله: بشرائطها)متعلق بتجب الأول، والضمير للجمعة وشمل شرائط الوجوب وشرائط الصحة اھ(166/2)
و فی فتح القدير: الخياط إذا جلس فيه لمصلحته من دفع الصبيان وصيانة المسجد لا بأس به للضرورة اھ(422/1)
و فی الفتاوى الهندية:الخياط إذا كان يخيط في المسجد يكره إلا إذا جلس لدفع الصبيان وصيانة المسجد فحينئذ لا بأس به اھ(110/1) واللہ اعلم

واللہ تعالی اعلم بالصواب
شہزاد ذوالفقار عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 68166کی تصدیق کریں
0     129