(+92) 0317 1118263

وقف

مسجد بننے کے بعد اسے فروخت کردینے کا حکم

فتوی نمبر :
67417
| تاریخ :
0000-00-00

مسجد بننے کے بعد اسے فروخت کردینے کا حکم

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے دادا مرحوم نے ایک پلاٹ تعمیراتی مقاصد کے لئے خریداتھا،لیکن ان کے انتقال کے بعد چچاؤں نے اپنے والد کے نام صدقہ جاریہ کے واسطے مذکورہ پلاٹ پر مسجد تعمیر کی، جس کے اخراجات تمام بھائیوں نے مشترکہ طور پر ادا کیے( بغیر کسی خارجی چندہ لیے) اب مسجد چونکہ تعمیر ہوچکی ہے، اس میں باقاعدہ نمازیں، جمعہ، اور عیدین بھی ادا کی جاتی ہیں ، اور ساتھ ہی مسجد کی چھت پر عام رہائش بھی رکھی ہوئی ہے،اب وہ اس مسجد کو کسی مذہبی ادارے کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ خرید و فروخت درست ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں اسکا حکم ارشاد فرمایئے۔نوٹ : مذکور پلاٹ تمام ورثاء کی رضامندی و خوشی سے مسجد کے لئے باقاعدہ وقف کر دیا گیا تھا ،اس کے کچھ عرصہ بعد سائل کے تایا کو ضرورت پڑی ،تو وہ عارضی طور پر مسجد کے اوپر منتقل ہوئے ،اپنے لئے رہائش بنا کر ۔

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

سوال میں درج کردہ تفصیل اگر واقعۃً درست اور مبنی بر حقیقت ہو،اس میں کسی قسم کی غلط بیانی اور کمی بیشی سے کام نہ لیا گیا ہو،اس طور پر کہ سائل کے دادا مرحوم کی وفات کے بعد اس کے تمام ورثاء نے اپنی مرضی وخوشی سے مذکور پلاٹ مسجد کے لئے وقف کرکے اس پرباقاعدہ مسجد تعمیر کر لی ہو ،اور اس میں ایک عرصے سے باجماعت نمازوں اور جمعہ وعیدیں کی ادائیگی کا اہتمام ہو رہا ہو ،تو ایسی صورت میں مذکور جگہ باقاعدہ مسجدِ شرعی بن چکی ہے،اب وہ تاقیامت مسجد ہی کے حکم میں ہی رہے گی ،اور مسجد کی خریدوفروخت شرعاً جائز نہیں ،لہذا سائل کے چچاؤں کے لئے مذکور مسجد کو کسی کے ہاتھ فروخت کرنا یا اسے ذاتی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرکے وہاں رہائش اختیار کرنا شرعاً جائز نہیں ،جس سے احتراز لازم ہے ۔

مأخَذُ الفَتوی

کما فی الدر المختار :( فإذا تم و لزم لا يملك و لا يملك و لا يعار و لا يرهن )اھ ۔
و فی الشامیۃ :( قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه، و لا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع و نحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه،(4/352)۔
و فیھا ایضاً :( و يزول ملكه عن المسجدو المصلى ) بالفعل و ( بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (و شرط محمد ) و الإمام (الصلاة فيه) بجماعة و قيل : يكفي و احد و جعله في الخانية ظاهر الرواية . (4/357)۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
حماد منظور عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 67417کی تصدیق کریں
0     188