(+92) 0317 1118263

وقف

عیدگاہ کے لیے وقف شدہ زمین میں اسی سال بعد پوتے کے لئے وراثت کا دعویٰ کرنا

فتوی نمبر :
67878
| تاریخ :
0000-00-00

عیدگاہ کے لیے وقف شدہ زمین میں اسی سال بعد پوتے کے لئے وراثت کا دعویٰ کرنا

موضوع : وقف شدہ زمین میں میراث کا دعویٰ کرنا کیسا ہے؟ سوال: شہر بلاری میں ایک جگہ 1925ء میں عید گاہ کےلئیے سید عبدالسلام مرحوم(ہڈی والے) نے وقف کی تھی، الحمدللہ! تبھی سے اب تک بھی اسی جگہ پرعیدگاہ تعمیر ہے اور ہر عید کی نماز یہیں پر ادا کی جارہی ہے، اورعیدگاہ کمیٹی کی انتظامیہ کے پاس تمام تر انتقالات اور کاغذات بھی موجودہیں،اَب98سال بعد واقف کا ایک پوتا اس موقوفہ زمین میں وراثت کا دعویٰ کر تا ہے‘ اور وہ اپنے حصہ کی رقم طلب کرتے ہوئے وکیل کی جانب سے نوٹس بھی بھیج دیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً اس موقوفہ زمین میں وراثت کا دعویٰ درست ہے؟ جب کہ واقف کے بعد ان کی اولاد میں سے کسی نے بھی اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا، امید ہے کہ اس مسئلہ کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں عنایت فرماکر جماعت و جمعیت کے لئیے اطمینان کا باعث ہوں گے۔والسلام

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

واضح ہو کہ جب زمین کسی خاص مصرف کیلئے وقف کر کے متولی کے حوالے کر دی جائے اور اسکے بعد اس مصرف میں اسکا استعمال شروع ہو جائے تو شرعاً وقف تام ہو جاتا ہے، اسکے بعد اس میں کسی کیلئے دعویٰ کا حق حاصل نہ ہو گا۔
جبکہ سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ جب مذکور شخص" مسمیٰ مرحوم عبدالسلام" نے 1925ء میں زمین باقاعدہ عید کیلئے وقف کی ہے اور اس میں ایک عرصے سے نمازوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے، اور عیدگاہ انتظا میہ کے پاس باقاعدہ کا غذات بھی موجود ہیں، تو مر حوم کا پوتا کس بنیاد پر اس زمین میں حصہ داری کا دعویدار ہے؟
تاہم سوال میں ذکر کردہ بیان اگر واقعۃً درست اور مبنی برحقیقت ہو اس طور پر کہ مذکور شخص"مسمیٰ مرحوم عبد السلام" نے اپنی صحت والی زندگی میں اپنی اس ذاتی زمین کو با قاعدہ عید گاہ کے لیے وقف کیا ہو تو یہ وقف شرعاً تام ہو چکا ہے، لہٰذا اب مرحوم کے پوتے کا اس موقوفہ زمین میں وراثت کا دعویٰ کرنا شرعاً جائز نہیں،جس سے احتراز لازم ہے۔

مأخَذُ الفَتوی

کما فی الدر المختار:(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن) (الی قولہ)(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى)بالفعل و(بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)اھ (4/356)
و فی الفقه الإسلامي: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيسا على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف۔اھ(10/7617)
و فی الأشباه والنظائر:شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في وجوب العمل به۔اھ(163)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
شہزاد ذوالفقار عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 67878کی تصدیق کریں
0     107