(+92) 0317 1118263

لباس کے آداب و احکام

کیا مرد کے لیے ہر وقت شلوار قمیص پہننا اور عورت کے لیے حجاب کرنا لازم ہے؟

فتوی نمبر :
3988
| تاریخ :
2020-10-26

کیا مرد کے لیے ہر وقت شلوار قمیص پہننا اور عورت کے لیے حجاب کرنا لازم ہے؟

محترم مفتی صاحب!
مردوں کے لباس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ کیا مرد کے لیے ہر وقت شلوار قمیص پہننا واجب ہے؟ یا ہم پینٹ شرٹ بھی پہن سکتے ہیں؟ اور عورتوں کے لیے وہ جب بھی باہر نکلیں حجاب پہننا ضروری ہے؟ یا دیگر ملبوسات بھی جس سے صرف چہرہ اور ہاتھ پاؤں ظاہر ہوں پہننے کی اجازت ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

مردوں کے لیے قمیص پہننا واجب نہیں ،مگر علماء و صلحاء کا لباس ہونے کی وجہ سے پسندیدہ اور خود نبی کریمﷺ کا پسند فرمودہ اور محبوب لباس ہے، البتہ ایسی پینٹ جو کہ اتنی چست اورتنگ ہو کہ اس سے اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو ،جیسا کہ آج کل ایسی پینٹ کا کثرت سے رواج ہے تو اس کو پہننا اور لوگوں کا دیکھنا اور دکھانا سب حرام ہے۔ جبکہ ایسی پنیٹ جس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو اگرچہ شرعاً اس کے پہننے کی اجازت ہے، لیکن تشبہ بالفساق کی وجہ سے احتراز چاہیے۔
۲۔ عورتوں کے لیے بلاوجہ شدیدہ گھر سے باہر نکلنا شرعاً ممنوع ہے، البتہ ضرورتِ شدیدہ کے وقت مکمل پردہ (جس میں چہرہ کا پردہ بھی شامل ہے) کا اہتمام کرنا ضروری ہے اور یہ خواہ کسی بھی روایتی اور حیادار لباس میں ممکن ہو اسے زیب تن کرنا ضروری ہے اور اس کے بغیر باہر نکلنے سے احتراز لازم ہے۔

مأخَذُ الفَتوی

ففی مشكاة المصابيح: عن أم سلمة قالت: كان أحب الثياب إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - القميص. رواه الترمذي وأبو داود اه (2/ 1243)
وفیه أیضاً: وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: رأى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على ثوبين معصفرين فقال: «إن هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها» وفي رواية: قلت: أغسلهما؟ قال: «بل احرقها» . رواه مسلم اھ (2/ 1242)
و فی حاشية ابن عابدين: وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظا لا يرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئيا فينبغي أن لا يمنع جواز الصلاة لحصول الستر. اه (1/ 410)
وفیه أیضاً:وعلى هذا لا يحل النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها فيحمل ما مر على ما إذا لم يصف حجمها فليتأمل اه(6/ 366)
ففی التفسير المظهري: ولا يجوز للمرءة النظر الى عورة المرأة يعنى تحت السرة الى الركبة ولا للرحل النظر الى عورة الرجل لحديث ابى سعيد قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا ينظر الرجل الى عورة الرجل ولا المرأة الى عورة المرأة- ولا يفضى الرجل الى الرجل في ثوب واحد ولا يفضى المرأة الى المرأة في ثوب واحد- رواه مسلم وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ كالحلى والثياب والاصباغ فضلا عن مواضعها إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها(إلی قوله) وقد قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - المرأة عورة فاذا خرجت استشرفها الشيطان- رواه الترمذي عن ابن مسعود فان هذا الحديث يدل على انها كلها عورة غير ان الضرورات مستثناة اجماعا- والضرورة قد تكون بان لا تجد المرأة من يأتى بحوائجها من السوق ونحو ذلك فتخرج متقنعة كاشفة احدى عينيها لتبصر الطريق- فان لم تجد ثوبا سائغا تخرج فيما تجد من الثياب ساترة ما استطاعت الخ(6/ 495،493) والله أعلم بالصواب!

واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد سعد جاوید عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 3988کی تصدیق کریں
0     388
متعلقه فتاوی
( view all )