(+92) 0317 1118263

لباس کے آداب و احکام

عورتوں کا کپڑوں میں کالر لگانا

فتوی نمبر :
17095
| تاریخ :
2020-10-26

عورتوں کا کپڑوں میں کالر لگانا

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورتوں کے لیے اپنے لباس میں کالر بین کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ اس حال میں کہ اس کالر یا بین کے استعمال کے لیے ستر عورت بنسبت بنسبت (کالر یا بین کے بغیر بنے ہوئے لباس) سے زیادہوتا ہے۔
اگر کہتا ہے کہ عورتوں کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے بوجہ مردوں کی ساتھ مشابہت کے جبکہ عمرو کہتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، یہ مشابہت ممنوعہ نہیں ہے، بالخصوص جبکہ اس سے ستر گریبان اعلی درجے کا حاصل ہوتا ہے، براہ کرم وضاحت فرمائیں۔

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

کپڑوں میں کالر کا ہونا نہ مردوں کےلیے پسندیدہ ہے اور نہ عورتوں کے لیے، جبکہ بین میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ عورت کا ہر وہ لباس جس میں کسی غیر مسلم قوم کے لباس کے ساتھ مشابہت نہ ہوتی ہے اور اس میں ستر بھی زیادہ ہوتا ہو بلاشبہ جائز اور درست ہے۔

مأخَذُ الفَتوی

ففی مشكاة المصابيح: قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : "من تشبه بقوم فهو منهم" . رواه أحمد وأبو داود- (2 / 487)
و فی مرقاة المفاتيح: عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله- صلى الله عليه وسلم- من تشبه بقوم أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار فهو منهم- (13 / 96)
فی مشكاة المصابيح: وعنه قال: قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال» . رواه البخاري(2/ 1262)
و فی البحر: لا بأس بلبس الثیباب الجمیلة إذا كان لاینکر علیه فیه اھ (۸/۱۹۰) واللہ أعلم بالصواب!

واللہ تعالی اعلم بالصواب
ریاض محمد فیروز عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 17095کی تصدیق کریں
1     816
متعلقه فتاوی
( view all )